رسائی کے لنکس

قبائلی علاقے کے خاصہ دار اور سیکورٹی فورسز کے حل طلب معاملات


صوبے میں ضم کئے جانے والے تمام سابق قبائلی علاقوں میں امن و امان قائم رکھنے کیلئے خاصہ دار فورسز میں لگ بھگ 17 ہزار جب کہ لیویز میں تقریباً گیارہ ہزار اہلکار اور افسران شامل ہیں۔ یہ تمام افراد و سابق برطانوی حکمرانوں کے رائج کردہ طریقہ کار اور فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن قوانین کے مطابق بھرتی کئے گئے

بتایا جاتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے نئے اضلاع میں امن و امان کی نگرانی پر مامور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے مقامی جیلوں اور حوالات کا انتظام صوبائی جیل اور پولیس اہلکاروں کو دینے سے انکار کر دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق، پچھلے چند روز سے صوبائی محکمہ جیل خانہ جات اور پولیس کے افسران اور اہلکار پشاور سے ملحقہ خیبر اور مہمند اضلاع میں قائم جیل خانوں اور حوالات کا انتظام سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر ان کو پہلے سے موجود خاصہ دار فورسز کے اہلکاروں اور افسران کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔

ضلع خیبر کی خاصہ دار فورسز کے افسر حاجی تحسین اللہ کوکی خیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ''سابق قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد انہیں پولیس فورس کا حصہ تسلیم کیا جانا چاہیئے تھا۔ مگر، بد قسمتی سے، بعض عناصر اس سلسلے میں روڑے اٹکا رہے ہیں''۔

اُنہوں نے کہا کہ چند مہینے قبل ان کی خیبر پختونخوا کے پولیس کے سابق سربراہ صلاح الدین محسود، صوبائی وزیر اطلاعات شوکت علی یوسفزئی اور وزیر اعلیٰ کے ترجمان اجمل وزیر کے ساتھ مفصل بات چیت ہوئی تھی۔ اور، اُنہوں نے خاصہ دار فورسز کے اہلکاروں اور افسران کو صوبائی پولیس فورس کا حصہ بنانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ لیکن، نقول اُن کے، ''موجودہ صوبائی حکمران کئے گئے وعدوں اور یقین دہانیوں پر عملدرآمد کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں''۔

تمام تر سابق قبائلی علاقوں کی خاصہ دار فورسز میں شامل افسران اور اہلکاروں کی قائم کردہ کمیٹی میں شامل صوبیدار ستار خان آفریدی نے کہا ہے کہ ہمارا مطالبہ انتہائی آسان اور معقول ہے جس میں تجربے تعلیم اور کارکردگی کی بنیاد پر پہلے خاصہ دار فورسز کے اہلکاروں کو صوبائی پولیس کا حصہ بنایا جائے۔ اور بعد میں نئی بھرتی کی جائے مگر صوبائی حکومت سب سے پہلے نئی بھرتی کے نام پر اپنے پسندیدہ دوستوں اور رشتہ داروں کو نئے اضلاع کی پولیس فورس میں بھرتی کرنا چاہتے ہیں۔

ایک اعلیٰ صوبائی عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ فی الوقت صوبائی حکومت نے پولیس فورس میں چھ ہزار جب کہ لیویز فورسز میں 22 سو افراد کو قواعد و ضوابط کے مطابق بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

عہدیدار نے مزید کہا کہ اس میں نہ صرف تمام تر نئے اضلاع سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ نوجوان بلکہ موجودہ فورس میں شامل اہلکاروں کو بھی ترجیح دی جائے گی۔ جب کہ اس دوران پہلے سے موجود خاصہ دار فورس میں شامل افسران اور اہلکار جو قواعد و ضوابط پر پورے اترتے ہیں کو بھی پولیس فورس کا حصہ بنانے کا عمل شروع ہوگا۔ تاہم، غلط فہمی کی بنیاد پر نہ صرف خاصہ دار فورسز میں شامل لوگ بلکہ انضمام کی محالفت کرنے والے چند قبائلی رہنما بھی اس مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق، صوبے میں ضم کئے جانے والے تمام سابق قبائلی علاقوں میں امن و امان قائم رکھنے کیلئے خاصہ دار فورسز میں لگ بھگ 17 ہزار جب کہ لیویز فورسز میں تقریباً گیارہ ہزار اہلکار اور افسران شامل ہیں۔ یہ تمام افراد و سابق برطانوی حکمرانوں کے رائج کردہ طریقہ کار اور فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن قوانین کے مطابق بھرتی کئے گئے۔

حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو مراعات یافتہ قبائلی رہنماؤں کی سفارش پر قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر بھرتی کیا گیا تھا؛ جب کہ ان میں زیادہ تر خیبر پختونخوا پولیس فورس کے قواعد و ضوابط پر پورا نہیں اُترتے۔

پچھلے سال مئی میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد مختلف نئے اضلاع میں سیکڑوں کی تعداد میں خاصہ دار فورسز کے اہلکاروں کو معطل اور ان کی تنخواہوں کی ادائیگیاں روک دی گئی ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ ان اہلکاروں میں وہ اہلکار اور افسران بھی شامل ہیں جنہوں نے نہ صرف دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں کردار ادا کیا، بلکہ ان پر خودکش حملے بھی ہوئے تھے۔ خاصہ دار فورسز کے درجنوں اہلکار دہشت گردوں کی کارروائیوں میں ہلاک بھی ہوئے تھے۔

XS
SM
MD
LG