وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں ’فاٹا‘ کے بارے میں اصلاحات کی اصولی منظوری دے دی گئی ہے۔
دہشت گردی سے متاثرہ ملک کے قبائلی علاقوں ’فاٹا‘ کو قومی دھارنے میں لانے کے لیے 2015ء کے اواخر میں وزیراعظم نواز شریف نے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے تمام قبائلی علاقوں کا دورہ کرنے اور تفصیلی مشاورت کے بعد اپنی سفارشات حتمی منظوری کے لیے کابینہ کے سامنے رکھیں تھیں۔
ان سفارشات کے تحت قبائلی علاقوں میں اصلاحات کے مرحلہ وار نفاذ کے بعد پانچ سال میں فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔
جمعرات کو کابینہ کے اجلاس کے بعد گورنر خیبر پختونخواہ اقبال ظفر جھگڑا، قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ اور وفاقی وزرا کے ہمراہ نیوز کانفرنس میں سرتاج عزیز نے کہا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد آئین میں ترمیم کا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائے گا۔
’’آج کابینہ نے منظوری دی ہے، اب آئینی ترمیم دونوں ایوانوں پیش کی جائے گی، جس بحث ہو گی اور دو تہائی اکثریت سے منظوری کے بعد جا کے یہ عمل شروع ہو گا۔‘‘
سرتاج عزیز نے کہا کہ کچھ اقدامات کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں ترجیحی بنیادوں پر کیا جائے گا۔
’’سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ لوگ واپس جائیں اپنے گھروں کو اور وہاں امن ہو، دوسرا یہ ہے کہ وہاں تعمیر نو کا کام شروع ہو، تیسرا یہ ہے کہ وہاں پر بلدیاتی انتخابات ہوں چوتھا وہاں پر ترقیاتی منصوبہ بندی کے لیے کمیٹی بنائی جائے جو منصوبے شروع کرے اور ان کے لیے وسائل پیدا کیے جائیں، پانچواں یہ کہ سکیورٹی انفراسٹریکچر تشکیل دیا جائے۔‘‘
سرتاج عزیز نے کہا کہ ’فاٹا‘ میں رائج ’ایف سی آر‘ کے قانون کو ختم کر کے اُس کی جگہ ’رواج ریگولیشن‘ کا نفاذ کیا جائے گا اور اصلاحات کے بعد پورے قبیلے نہیں بلکہ صرف اُسی شخص کو سزا ملے گی جس نے جرم کا ارتکاب کیا ہو گا۔
وفاقی وزیر برائے سرحدی اُمور لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ نے نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ان اصلاحات کی منظوری سے ’فاٹا‘ کے رہنے والوں کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوگا۔
’’سڑسٹھ سال گزر گئے فاٹا کے لوگ بالکل جائز طور پر شکایت کر رہے تھے کہ وہ پاکستان کے شہریوں کے برابر شہری نہیں تھے۔۔۔ بنیادی حقوق سے ان کو محروم کیا گیا تھا یہ جو اصلاحات کی کارروائی ہم نے ابھی کی ہے اس میں اس چیز کو ختم کیا گیا ہے وہ اپنے مقدر کے مالک خود ہوں گے۔‘‘
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے تمام افراد کی واپسی کا عمل 30 اپریل 2017 تک مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جب کہ ’فاٹا‘ میں بحالی و تعمیر نو کا کام 2018ء کے اواخر تک مکمل کیا جائے گا۔
اس سے قبل کابینہ کے اجلاس کے دوران وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ قومی وسائل پر فاٹا کے عوام کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا ملک کے دوسرے صوبوں اور حصوں میں بسنے والے عوام کا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان ہر پاکستانی کا ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیئے کہ کسی بھی امتیاز کے بغیر ہر پاکستانی کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع دیئے جائیں۔ اس مقصد کے لیے ہمیں پیچھے رہ جانے والے علاقوں اور عوام پر خاص توجہ دینا ہو گی۔‘‘
وزیراعظم نے کہا کہ قبائلی عوام نے ملک کے دفاع اور سلامتی کے لیے بہت خدمات سر انجام دی ہیں ’’وقت آگیا ہے کہ اب اُنہیں بھی پاکستانیت کے قومی دھارے میں لاکر سال ہا سال سے جاری محرومیوں کا خاتمہ کیا جائے۔‘‘