وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو شمال مغربی صوبہ خیبر پختوںخواہ میں فوری طور پر ضم کرنے کا مطالبہ لے کر قبائلی سیاسی اتحاد میں شامل بعض رہنماؤں، کارکنوں اور طلبا کی ایک قابل ذکر تعداد نے جمعرات کو پشاور پریس کلب کے سامنے علامتی احتجاج کیا۔
اس سیاسی اتحاد میں پاکستان میں حزب مخالف کی تقریباً سب ہی بڑی جماعتیں شامل ہیں۔
ایک روز قبل قبائلی علاقوں کے انتظامی سربراہ گورنر خیبرپختونخواہ اقبال ظفر جھگڑا کی زیر صدارت فاٹا اصلاحات سے متعلق اجلاس ہوا تھا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ ان علاقوں کو دس سال ک عرصے میں بتدریج صوبے میں شامل کر لیا جائے گا۔
تاہم فاٹا سیاسی اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں کا اصرار ہے کہ قبائلی علاقوں کو فوری طور پر صوبے میں ضم کیا جائے اور ان کے بقول اس سے قبائلیوں کے اکثر مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔
احتجاج میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے خیبر ایجنسی میں صدر شاہ حسین شنواری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فاٹا اصلاحات کمیٹی نے جو دس سال کا عرصہ متعین کیا ہے انھیں وہ منظور نہیں۔
"اگر ضمن کرنا ہے تو آج کیوں نہیں جو دس سال بعد کرتا ہے تو لہذا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جتنا جلدی ہو سکے فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کیا جائے اور آئندہ الیکشن سیاسی بنیادوں پر جو ہے فاٹا میں بھی صوبے کی نمائندگی کے مطابق اس میں نشستیں دی جائیں اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی فاٹا میں کیا جائے۔"
وفاق کے زیر انتظام سات قبائلی ایجنسیاں ہیں جہاں پر برطانوی نوآبادیاتی دور میں نافذ کیا گیا فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) رائج ہے اور شاہ حسین شنواری کے مطابق اگر یہ قانون ختم کر دیا جائے تو قبائلی علاقوں میں بہت حد تک امن لانے میں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔
تاہم بعض قبائلی رہنما اپنی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے خیبر پختونخواہ میں انضمام کی مخالفت بھی کرتے آرہے ہیں۔
ایسے قبائلی رہنما قبائلی علاقوں کو علیحدہ صوبے کا درجہ دلوانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
لیکن مبصرین کا بھی ماننا ہے کہ جغرافیائی، نسلی اور سماجی و اقتصادی اعتبار سے فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنانا مناسب نہیں ہو گا۔