رسائی کے لنکس

امریکی مسلمان فوجی کی والدہ کا ٹرمپ کے بیان پر سخت ردعمل


خضر خان اپنی اہلیہ کے ساتھ
خضر خان اپنی اہلیہ کے ساتھ

خضر خان نے ریپبلکن رہنماؤں سے کہا ہے کہ وہ ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے ان بیانات کو مسترد کر دیں جو انھوں نے ان کے مرحوم بیٹے کی 'قربانی' سے متعلق دیے ہیں۔

عراق جنگ کے دوران مارے جانے والے مسلمان امریکی فوجی ہمایوں خان کی والدہ نے رپبلکن جماعت کے صدارتی اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اپنی خاموشی کے بارے میں اُٹھائے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ اسلام اور قربانی کا مطلب نہیں جانتے۔

گزشتہ ہفتے ڈیموکریٹک کنونشن میں خضر خان کی تقریر کے دوران ان کی اہلیہ غزالہ اسٹیج پر ان کے ساتھ خاموش کھڑی تھیں اور اس بات پر سوال اٹھاتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے ٹوئیڑ پیغام میں کہا کہ ’’شاید انھیں کچھ بھی بولنے کی اجازت نہیں تھی۔‘‘

ٹرمپ کا امریکی مسلمان فوجی کے والد کی تنقید پر ردعمل
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:19 0:00

غزالہ خان نے امریکہ کے ایک موقر اخبار واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے ایک مضمون میں کہا کہ انھوں نے جب اپنے بیٹے کی تصویر کنونشن سینٹر میں آویزاں دیکھی تو وہ جذبات سے مغلوب ہو چکی تھیں۔ ’’میں نے بہت مشکل سے خود پر قابو رکھا۔‘‘

’’ایک ماں ایسے وقت میں کیا کر سکتی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ان کے شوہر نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا وہ کچھ کہنا چاہتی ہیں ’’لیکن میں نے انہیں بتایا کہ میں بات نہیں کر سکتی۔‘‘

غزالہ نے مزید کہا کہ ’’ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے بہت قربانیاں دی ہیں ۔۔۔وہ نہیں جانتے ہیں کہ اس لفظ (قربانی) کا کیا مطلب ہے‘‘۔

اُدھر غزالہ کے شوہر خضر خان نے ریپبلکن رہنماؤں سے کہا ہے کہ وہ ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے ان بیانات کو مسترد کر دیں جو انھوں نے ان کے مرحوم بیٹے کی 'قربانی' سے متعلق دیے ہیں۔

پیر کو نیشنل ٹی وی پر اپنے انٹرویو میں خضر خان نے ٹرمپ کو ’’مکمل طور پر اس خوبصورت ملک (امریکہ) کی قیادت کے لیے غیر موضوع قرار دیا‘‘۔ انھوں نے ریپبلکن رہنماؤں مچ میکونل اور پال رائن سے اپنی جماعت کے صدارتی امیدوار کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے کہا ہے۔

خضر خان نے کہا کہ ان کی اہلیہ غزالہ خان گزشتہ ہفتے ہوئے ڈیموکریٹک پارٹی کے قومی کنونشن میں پہلی بار منظر عام پر آئیں جب انھوں نے ڈیموکریٹک جماعت کی نامزد صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن کی حمایت کی۔

خضر خان ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری ہیں اور اُنھوں نے کنونشن کے موقع پر ایک جذباتی تقریر میں کہا تھا کہ اگر اس ملک میں ٹرمپ کی مجوزہ امیگریشن پالیسی نافذ ہوتی تو ان کے خاندان کو کبھی بھی امریکہ آنے کی اجازت نا ملتی۔

خضر خان نے اپنے انٹرویو میں مزید کہا کہ ٹرمپ میں ہمدردی (کے جذبات) کی کمی ہے اور انھوں نے ’’کوئی قربانی نہیں دی ہے‘‘۔

خضر خان کے ان بیانات کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بھرپور بحث شروع ہو گئی۔ جس کے بعد سینیٹ کے اکثریتی رہنما اور ایوان نمائندگان کے اسپیکر نے اپنے آپ کو اس تنازع سے الگ کر لیا۔

ایک بیان میں کانگرس کے رہنماؤں نے ایسے مسلمان امریکیوں پر کسی بھی طرح کی تنقید کی مذمت کی جو امریکہ کے لیے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کی امریکہ میں داخلے پر پابندی کے بارے میں ٹرمپ کی تجویز کو بھی مسترد کیا تاہم انھوں نے ٹرمپ کا نام نہیں لیا۔

قبل ازیں ٹرمپ نے امریکی نشریاتی ادارے 'اے بی سی نیوز' کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ انھوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں اور ان کے بقول انھوں نے بہت سخت محنت کی اور (لوگوں کے لیے) ملازمتوں کے ہزاروں مواقع پیدا کیے۔

’’میرے خیال میں یہ قربانیاں ہیں، میرے خیال میں ہزاروں لوگوں کو نوکریاں دے کر ان کی تعلیم کا خیال رکھا اور ان کے لیے کئی دیگر چیزوں کا اہتمام کیا‘‘۔

نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کی حریف اور سابق وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے ایک بار پھر ٹرمپ پر امریکہ معاشرے میں تقسیم کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا ہے۔ اوہائیو میں خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ ان کے حریف امریکہ کی اقدار سے ’’مکمل طور پر نابلد ہیں‘‘۔

دوسری طرف امریکہ کے سابق فوجیوں کے گروپ کے ایک منتظم پال ریکاف نے ٹرمپ کی طرف سے نوکریوں کا بندوبست کرنے کو جنگ میں جان کھونے کی قربانی کی طرح بیان کرنے کو ’’غیر دانشمندانہ‘‘ قرار دیا۔

تاہم اتوار کو ٹرمپ نے اپنے بیان کی تشریح کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ’’کیپٹن خان جو بارہ سال پہلے مارے گئے وہ ایک ہیرو تھے۔ تاہم یہ بنیاد پرست اسلامی دہشت گردی کی بات ہے اور ہمارے رہنماؤں کی طرف سے اس کا قلع قمع کرنے کے لیے کمزور (اقدامات) کی بات ہے۔‘‘

ایک دوسرے بیان میں ٹرمپ نے کہا کہ ’’ڈیموکریٹک پارٹی کی کنونشن میں مسٹر خان نے مجھ پر سخت حملہ کیا۔ کیا مجھے جواب دینے کی اجازت نہیں ہے۔ ہلری نے عراق کی جنگ کے حق میں ووٹ دیا تھا میں نے نہیں۔‘‘

2003ء میں ہلری کلنٹن نے بطور سینٹر دیگر قانون سازوں کے ساتھ مل کر عراق میں فوجی مداخلت کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے نتیجے میں عراق سے صدام حسین کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔

امریکی مداخلت کے بعد عراق میں آٹھ سال تک جنگ جاری رہی جس کی کئی امریکیوں بشمول ہلری کلنٹن نے مخالفت کی۔

XS
SM
MD
LG