امریکہ اور مطلق العنان حکومتوں کےدرمیان جنگ اب سائبر اسپیس کی حدود سے بڑھ کر امریکی سرزمین تک پھیل رہی ہیں جب کہ چین اور ایران جیسے ملک پہلے سے کہیں زیادہ سخت کارروائیوں میں حکومت مخالفین اور اقلیتی گروپس کونشانہ بنا رہےہیں۔
ایف بی آئی کے سینئر کاونٹر انٹیلی جنس حکام نے بدھ کے روز کہا کہ امریکہ کو اس وقت بین الاقوامی جبر کر روکنے میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کا سامنا ہے اور انہوں نے متعدد ملکوں سے درپیش نئے ہتکھنڈ وں سے خبردار کیا ۔
ایف بی آئی کے کاؤنٹر انٹیلی جنس کے ایک سینئر اہل کار نے بیورو کے مقرر کردہ راہنما اصولوں کے تحت صحافیوں کو اپنا نام ظاہر نہ کرنےکی شرط پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ہم جس تبدیلی کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ دھمکیوں کی سطح میں اضافہ اور تشدد کے خطرات اور ہراساں کرنےکے واقعات میں اس حد تک اضافہ ہے جو ہم نے پہلے نہیں دیکھا ہے ۔
ایک دوسرے سینئر اہل کار نےکہا کہ چین، ایران اور دوسرے ملک اپنی حکومتوں کو مستحکم کرنے اور اپنے وجود کو برقرار رکھنے کو ایک ترجیح سمجھتے ہیں، وہ اس ترجیح کو تقویت دے رہےہیں اور حکومت مخالفین کا پیچھا کرنے کے لیے امریکی سر زمین تک جانے کے لیے پہلے سےزیادہ خواہاں ہیں۔
بدھ کا یہ انتباہ اس کےایک روز بعد سامنے آیا ہے جب ایف بی آئی نے نیویارک شہر کے دو رہائشیوں پر چین کی پبلک سیکیورٹی کی وزارت کی طرف سےایک خفیہ اور غیر قانونی پولیس اسٹیشن چلانے کا الزام لگاتے ہوئے گرفتار کیا ۔
امریکی اٹارنی بریون پیس نے پیر کو الزامات کا اعلان کرتےہوئےکہا کہ ہم چینی حکومت کی جانب سے ان جمہوریت نواز سر گرم کارکنوں کے خلاف جبر برداشت نہیں کریں گےجو اس ملک میں پناہ لے چکےہیں۔ انہوں نےمزید کہا کہ ہم چینی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے ہمارے رہائشیوں کو دبانے اور ہراساں کرنے کی کسی بھی کوشش کےمقا بلے کے عزم سے بدستور وابستہ ہیں ۔
ایف بی آئی نے بدھ کو اس بارےمیں تفصیلات فراہم کرنےسےانکار کر دیا کہ کتنے ملک ایسی سر گرمیوں میں ملوث ہیں۔ تاہم پہلے اہل کار نے کہا کہ چین اور ایران اہم مجرم رہےہیں۔
دوسرے امریکی حکام نے بیلاروس، مصر اور سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے مشتبہ افراد کے خلاف فرد جرم کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اور روس کے بارے میں خدشات ہمیشہ موجود ہیں۔
لیکن اس سے قطع نظر کہ جبر کی کارروائیوں کے پیچھے کس حکومت کا ہاتھ ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بات پر متفق ہیں کہ خطرہ بڑھ رہا ہے۔
امریکہ میں قائم فریڈم ہاؤس کے زیر انتظام ڈیٹا بیس نے 2014 سے اب تک 38 حکومتوں کی جانب سے 91 م ملکوں میں بین الاقو امی جبر کے 854 جسمانی واقعات کا پتہ چلایا ہے جن میں صرف 2022 میں 79 واقعات شامل ہیں۔
فریڈم ہاؤس کے اعداد و شمار کے مطابق چین اس حوالے سے سب سے آگے تھا جو گزشتہ 9 برسوں میں253 ایسے واقعات میں ملوث تھا جسے ادارے نےبراہ راست، جسمانی بین الاقوامی جبر کے طور پر بیان کیا ۔
دوسرے نمبر پر ترکی، اس کے بعد تاجکستان، روس، مصر، ترکمانستان، ازبکستان، بیلاروس، ایران اور روانڈا تھے۔
ایف بی آئی اور نفاذ قانون سےمتعلق دوسرے حکام نے بھی خبردار کیا ہے کہ ان میں سے بہت سے ممالک امریکہ میں ناقدین کو خاموش کرنے کی اپنی کوششوں میں پہلے سے زیادہ جدید پہلے سے زیادہ بے خوف ہو رہےہیں۔
اس سال کے شروع میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے عالمی سطح پر خطرے کے اپنے اندازے میں کہا کہ چینی حکومت بیرون ملک چینی طالب علموں کی بھر پور طریقے سے نگرانی کر رہی ہے، اور مخالفت کو کچلنے میں مدد کے لیے چینی طالب علموں کی تنظیموں کو متحرک کر رہی ہے ۔
اور یہ ہی نہیں بلکہ بیجنگ پی آر سی کے ناقدین کی نگرانی اور سینسر کرنے میں مدد کے لیے چین میں قائم تجارتی اداروں کی مدد حاصل کرنےکے لیے بھی تیار ہے ۔
جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ وہ امریکہ کے اندر ایک متبادل نیٹ ورک تیار کرنے کے لیے پرعزم ہے جو ایسا مقصد ہے جسے وہ ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔