داعش کا دہشت گرد گروپ اب بھی کافی خطرناک ہے، جب کہ داعش کے دہشت گرد گروپ کو تباہ کرنے کے بارے میں امریکی قیادت میں کام کرنے والے اتحاد کے تازہ ترین اعداد، بظاہر پریشان کُن بھی ہو سکتے ہیں۔
فوجی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ خودساختہ خلافت جس کا کسی وقت عراق اور شام کے وسیع خطے پر طوطی بولتا تھا، وہ اب مشرقی شام کے تقریباً 300 مربع کلومیٹر کے علاقے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
اتحاد کی سول اور فوجی کارروائیوں کے بارے میں فرانسیسی برگیڈیر جنرل فریڈرک پریسو نے بتایا کہ ’’واقعی وہ شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ وہ انتہائی غیر منظم ہو چکے ہیں‘‘۔
اُن کا کہنا ہے کہ داعش کے لڑاکا ’’چند سو رہ گئے ہیں‘‘، عین ممکن ہے کہ عسکریت پسند دولت اسلامیہ کو چھوڑ چکے ہوں۔
تاہم، جیسا کہ داعش کے خلاف لڑائی میں زیادہ تر معاملہ رہا ہے، طویل مدت سے تشویش لاحق رہی ہے کی لگائے جانے والے اندازے پرانے ہوچکے ہیں، اور خفیہ اطلاعات کے مقابلے میں، داعش کی کمزور ہونے والی طاقت بھی بہت زیادہ ہے۔
پریسو نے توجہ دلائی ہے کہ ’’داعش کا ایک لڑاکا بہت سوں کے برابر ہے‘‘۔
اُنھوں نے بتایا کہ ’’ہم اب بھی اہم جنگی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میں اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ کب ختم ہوگا‘‘۔
دیگر امریکی فوجی اہلکار، جن سے شام میں داعش کی جانب سے درپیش خدشات کے بارے میں معلوم کیا گیا، وہ تفصیل بتانے سے قاصر تھے۔
داعش کی فوج کے بارے میں ایک سوال پر ایک سینئر امریکی فوجی اہلکار نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’ابھی تک وہ حملے کر رہے ہیں۔ اس لیے، ظاہر ہے کہ اُن کی صلاحیت موجود ہے‘‘۔
دولت اسلامیہ کے لڑاکوں کی تعداد گننا اور درپیش خطرات کی تفصیل بتایا ایک عرصے سے مشکل اور متناع معاملہ رہا ہے۔
سنہ 2015 جب داعش کا دہشت گرد گروپ زوروں پر تھا، امریکی فوج اور انٹیلی جنس اہلکاروں نے بتایا کہ داعش کے لڑاکوں کی تعداد تقریباً 33000 تھا، جو انتہائی محتاط اندازہ ہے، اور کئی ماہ تک یہی اندازہ جاری رہا، جب کہ دیگر امریکی اہل کاروں کے خیال میں اتحادی فضائی حملوں مین داعش کے کم از کم 50000 عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔
فوجی اور انٹیلی جنس حکام نے دہشت گرد گروپ کی بھرتی کرنے کی استعداد کی جانب دھیان مبذول کراتے ہوئے کہا کہ ایک وقت تھا کہ ایک ماہ کے اندر وہ 2000 غیر ملکی عسکریت پسند بھرتی کر لیتے تھے، یہی سبب ہے کہ داعش کی تعداد مستقل طور پر اُسی سطح پر رہی ہے۔