پاکستان میں دہشت گرد اور کالعدم عسکری تنظیمیں متمول خاندانوں، بااثر شخصیات سے وابستہ افراد کے علاوہ غیر ملکیوں کے اغوا کے ذریعے بھی مالی وسائل جمع کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہیں۔ مغویوں کی رہائی کے بدلے یا تو حکومت سے اپنے مطالبات منوائے جاتے ہیں یا پھر بھاری تاوان طلب کیا جاتا ہے۔
دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف تین سال قبل جون کے مہینے میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن 'ضرب عضب' اور رواں سال کے اوائل میں 'آپریشن ردالفساد' سے ماضی کی نسبت پاکستان میں امن و امان کی صورت حال میں قابل ذکر حد تک بہتری آئی ہے۔
حکام حالیہ برسوں میں دہشت گردوں کے لیے مالی وسائل کے حصول کے ذرائع مسدود کرنے کی کوششوں کے بھی خاطر خواہ نتائج برآمد ہونے کا کا دعویٰ کرتے ہیں۔
لیکن اب بھی ایسے خدشات موجود ہیں کہ سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے روپوش ہو جانے والے عسکریت پسند اور پاکستان دشمن عناصر، بااثر افراد خصوصاً غیر ملکیوں کے اغوا کی کوششیں کر سکتے ہیں۔
گزشتہ تقریباً ایک دہائی کے دوران پاکستان کے مختلف علاقوں سے متعدد افراد کو اغوا کیا گیا جن میں غیرملکی بھی شامل تھے۔ ان میں سے بعض کو یا تو تاوان دے کر بازیاب کرایا گیا یا پھر ان کی رہائی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں عمل میں آئی۔
بعض ایسے بھی تھے جو مطالبات پورے نہ ہونے پر قتل کر دیے گئے۔ یا اغوا کاروں کی تحویل کے دوران ہی طبی پیچیدگیوں سے موت کا شکار ہوئے۔ یا پھر بازیابی کے لیے کیے گئے آپریشن میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
2008ء میں خیبر پختونخواہ سے ملحق پنجاب کے آخری ضلع اٹک سے طالبان عسکریت پسندوں نے پولینڈ کے ایک انجینئر کو اغوا کیا تھا جو تقریباً ایک سال بعد اغوا کاروں کی تحویل میں ہی بیماری کا شکار ہو کر انتقال کر گیا۔
2009ء میں کئی ماہ تک اغوا کاروں کی تحویل میں رہنے کے بعد اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے عہدیدار امریکی شہری جان سولنکی کو رہائی ملی تھی اور ایسی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ ان کی بازیابی تاوان ادا کر کے ہی ممکن ہو سکی۔
2011ء میں سیاحت کے لیے پاکستان آئے ہوئے ایک سوئس جوڑے کو بلوچستان سے اغوا کیا گیا جو مارچ 2012ء میں کسی طرح اغوا کاروں کے چنگل سے بچ نکلنے میں کامیاب رہا۔
2011ء میں ہی لاہور سے ایک امریکی شہری وارن ویئنسٹین کو اغوا کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری القاعدہ کی طرف سے قبول کی گئی تھی۔ جنوری 2015ء میں دہشت گردوں کے ایک ٹھکانے پر مشتبہ امریکی ڈرون سے حملہ کیا گیا اور مغوی ویئنسٹین بھی یہیں قید ہونے کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے۔
2012ء میں ایک بین الاقوامی امدادی تنظیم سے وابستہ دو غیر ملکیوں کو ملتان سے اغوا کیا گیا تھا جن میں سے ایک 2014ء میں افغانستان سے بازیاب ہوا جب کہ دوسرا بازیابی کے لیے کی گئی ایک کارروائی میں مارا گیا۔
2013ء میں جمہوریہ چیک سے تعلق رکھنے والی دو خواتین سیاح پاکستان کے شمال مغرب سے اغوا ہوئیں جن کی رہائی کے لیے اغوا کاروں نے القاعدہ سے تعلق اور امریکی فوجیوں پر حملہ کرنے کے الزام میں امریکہ میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ دونوں مغوی خواتین 2015ء میں رہا ہوئیں اور جمہوریہ چیک کے صدر نے بعد ازاں کہا کہ یہ رہائی 60 لاکھ امریکی ڈالر تاوان ادا کرنے سے ممکن ہوئی۔
گزشتہ ماہ کے اواخر میں کوئٹہ سے دو چینی شہریوں کو اغوا کیا گیا تھا جن کے بارے میں تاحال کوئی مصدقہ معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
لیکن ایک ایسے وقت جب چین پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ تیزی سے اپنی تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے چین کے شہریوں کے اغوا سے ایسے خدشات نے بھی جنم لیا ہے کہ عسکریت پسندوں کے علاوہ پاکستان مخالف عناصر ملک کی ساکھ کو متاثر کرنے کے لیے غیر ملکیوں پر حملوں یا انھیں اغوا کرنے کی وارداتوں کو تیز کر سکتے ہیں۔
سندھ پولیس کے سابق سربراہ اور سکیورٹی امور کے تجزیہ کار افضل علی شگری کہتے ہیں کہ اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت بڑی تعداد میں چینی اور دیگر غیر ملکی پاکستان کا رخ کریں گے ایسے میں شرپسندوں کی طرف سے لاحق خطرات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
"پاکستان دشمنی میں بھی ان (شرپسندوں) کی کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان کو نقصان پہنچایا جائے جس کے لیے وہ غیر ملکیوں کو ہدف بناتے ہیں۔ خصوصاً ان غیرملکیوں کو جو پاکستان میں ترقی یا فلاح کے لیے کوئی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ خطرہ اس لیے بھی موجود ہے کہ سی پیک (شروع ہونے) سے بہت زیادہ لوگ آئیں گے۔ ان کی تعداد زیادہ ہوگی تو یہ خطرہ موجود ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے گو کہ حکومت کی طرف سے کوشش کی گئی ہے کہ لوگوں کو سکیورٹی دی جائے۔"
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے اور اس سے وابستہ غیر ملکیوں کے تحفظ کے لیے مسلح افواج اور پولیس کی خصوصی فورسز کے یونٹس تشکیل دیے گئے ہیں اور پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنایا جائے گا۔
حالیہ برسوں میں ملک کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹوں کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد شاہ کے بیٹے کے اغوا کے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔ مختلف اوقات اور مختلف مقامات سے اغوا ہونے والے ان تینوں افراد کی رہائی عمل میں آچکی ہے۔