رسائی کے لنکس

مرغوں کی لڑائی: فلپائن کا پسندیدہ کھیل اور حکومت کی آمدنی کا بڑا ذریعہ


فلپائن میں آپ کو اکثر مقامات پر ایک اور طرح کے اکھاڑے نظر آئیں گے جن میں انسان نہیں بلکہ مرغ لڑتے ہیں اور لڑتے لڑتے لہولہان ہو جاتے ہیں بلکہ اکثر اوقات اپنی جان سے بھی جاتے ہیں۔

مرغوں کی لڑائی کو مزید خونی بنانے کے لیے ان کے پاؤں میں تیز دھار بلیڈ باندھ دیے جاتے ہیں تاکہ ہر وار کاری ہو۔

اس خونی منظر کو دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم نما اکھاڑے میں تماشائیوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ جب مرغ اپنی گردن پھلا کر اور اچھل کر ایک دوسرے پر جھپٹتے ہیں تو تماشائی اپنی پسند کے مرغ کی حوصلہ افزائی کے لیے تالیاں بجاتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں۔

مرغوں کی لڑائی فلپائن کا ایک مقبول کھیل ہے جس پر لاکھوں پیسو(فلپائن کا سکہ) کی شرطیں لگائی جاتی ہیں۔

کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے دنوں میں بہت سے مرغوں کی جانیں اس وجہ سے بچ گئی تھیں کہ ان دنوں زیادہ تر یہ کھیل بند رہا۔ لیکن اب کووڈ-19 کا زور ٹوٹنے کے بعد مرغوں کے اکھاڑوں کی رونقیں پھر سے بحال ہو گئی ہیں۔

مرغوں کے ایک اکھاڑے میں لڑاکا مرغ لڑائی کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔
مرغوں کے ایک اکھاڑے میں لڑاکا مرغ لڑائی کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔

مرغوں کی لڑائی کو جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں خونی کھیل قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کرتے ہوئے پابندی لگانے کا مطالبہ کرتی ہیں، جس میں ایک مرغ کا مرنا یقینی ہوتا ہے۔ جب کہ اس کھیل کے حامی اسے فلپائن کی ثقافتی پہچان سمجھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مرغ نے تو آخرکار مرنا ہی ہے۔ لڑائی میں نہ مرا تو بھی ہم نے اسے پکا کر کھانا ہی ہے۔

فلپائن کے اکثر علاقوں میں ہر ہفتے مرغوں کے اکھاڑے سجتے ہیں۔ اور تماشائی ان پر بڑی بڑی شرطیں لگاتے ہیں۔

ڈی لا کروز دارالحکومت منیلا کے قریب سین پیڈرو میں رہتے ہیں۔ وہ اپنے مرغ لڑنے کے لیے اکھاڑے میں اتارتے ہیں۔ حال ہی میں وہ دس لاکھ پیسو کا مقابلہ جو تقریباً 17 ہزار ڈالر کے مساوی ہے، معمولی فرق سے نہ جیت سکے۔ وہ کہتے ہیں ہمارے قبصے کے آدھے سے زیادہ لوگ مرغوں کی لڑائی میں حصہ لینے کے لیے مرغ پالتے ہیں۔

مرغوں کے اکھاڑے پھر سے بھرنے پر کروز بہت خوش ہیں۔ خوش ہوں بھی کیوں نا۔ مرغ لڑتے ہیں تو ان کے گھر کا چولہا جلتا ہے کیونکہ یہی ان کا پیشہ ہے۔ ان کا سارا دن مرغ پالنے، انہیں لڑائی کے لیے تیار کرنے اور ان کا ناز نخرہ اٹھانے میں گزرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں مرغ اپنے بھتیجے کے فارم سے لاتا ہوں۔ان کا بھتیجا لڑنے والے مرغ پال کر انہیں بیچتا ہے۔

لڑاکا مرغوں کے پاؤں میں تیز دھار بلیڈ باندھے جاتے ہیں تاکہ اس کا ہر حملہ کاری ثابت ہو۔
لڑاکا مرغوں کے پاؤں میں تیز دھار بلیڈ باندھے جاتے ہیں تاکہ اس کا ہر حملہ کاری ثابت ہو۔

یونیورسٹی آف فلپائن میں شعبہ بشریات کے ایک ماہر کسٹر کیبلزا کہتے ہیں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں امیری اور غریبی کا فرق بہت نمایاں ہے۔ مرغوں کا اکھاڑہ ایک ایسا منفرد مقام ہے جہاں دونوں ایک ہی درجے پر آ جاتے ہیں اور لڑائی کے قواعد دونوں پر یکساں لاگو ہوتے ہیں، جب کہ معاشرے کے باقی معاملات میں عموماً ایسا نہیں ہوتا ۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مرغوں کی ہر لڑائی میں عموماً تین سے چار لاکھ پیسو کی شرطیں لگتی ہیں اور یہ لڑائی بمشکل ایک منٹ تک ہی جاری رہتی ہے اور اکھاڑے میں اترنے والے دو مرغوں میں سے ایک لہولہان ہو کر گر جاتا ہے جب کہ فاتح مرغ کے زخموں سے بھی خون رس رہا ہوتا ہے۔

جس روز اکھاڑہ سجتا ہے، اس دن ایک گھنٹے میں عموماً 15 مقابلے ہوتے ہیں۔ جیتنے والے مرغ کا مالک انعام سمیٹ کر فخر سے سینہ پھلائے باہر نکلتا ہے جب کہ ہارنے والا خاموشی سے غائب ہو جاتا ہے۔

فلپائن میں لڑاکا مرغ پالنا ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ ملک بھر میں کئی ایسے فارم موجود ہیں جو لڑاکا مرغوں کی پرورش کرتے ہیں۔ ان کی قمیت تین ہزار پیسو سے 15 ہزار پیسو تک ہوتی ہے۔

لڑاکا مرغ کی قمت کا انحصار عموماً اس کے شجرہ نصب پر ہوتا ہے۔ جس مرغ کے باپ دادا نے جتنی زیادہ لڑائیاں جیتی ہوں، اس کے اتنے ہی زیادہ دام لگتے ہیں۔

مرغوں کی لڑائی پر ہر ماہ اربوں پیسو کی شرطیں لگائی جاتی ہیں جن سے حکومت کو ماہانہ کم از کم 64 کروڑ پیسو ٹیکس ملتا ہے۔
مرغوں کی لڑائی پر ہر ماہ اربوں پیسو کی شرطیں لگائی جاتی ہیں جن سے حکومت کو ماہانہ کم از کم 64 کروڑ پیسو ٹیکس ملتا ہے۔

مرغوں کی لڑائی میں لوگوں کی جنون کی حد تک دلچسپی تو ہے ہی، لیکن اس گنگا میں ہاتھ دھونے میں حکومت بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے دنوں میں جب مرغوں کے اکھاڑے بند ہو گئے تو سابق صدر راڈ ریگو ڈوٹرٹ نے سات کمپنیوں کو مرغوں کی لڑائی کے مقابلے انٹرنیٹ پر دکھانے کے لائسنس جاری کیے تھے جس میں شائقین کو اپنے موبائل فون کے ذریعے 200 پیسو سے زیادہ کی شرط لگانے کی اجازت دی گئی تھی۔ ان دنوں یہ مقابلے خالی اسٹیڈیم میں ہوتے تھے انہیں براہ راست آن لائن نشر کیا جاتا تھا جنہیں مقامی زبان میں ای-سابونگ کہا جاتا تھا۔

ان ہی دنوں ، صدر راڈریگو نے جانوروں کے حقوق کے کارکنوں کی جانب سے پابندی لگانے کے مطالبے کے جواب میں کہا تھا کہ ایک ایسے موقع پر جب ہماری معیشت ڈوب رہی ہے، سابونگ سے حکومت کو ماہانہ 64 کروڑ پیسو محصول حاصل ہو رہا ہے۔ ہم اسے کیوں بند کریں۔

مرغوں کی لڑائی صرف حکومت کا خزانہ ہی نہیں بلکہ اس کھیل کو فروغ دینے والوں کی تجوریاں بھی بھر رہی ہے۔ مرغوں کی لڑائی براڈکاسٹ کرنے والے ایک چینل لکی8 نے اس سال سینیٹ کی ایک انکوائری کے دوران بتایا کہ ان کے چینل پر ہر ماہ مرغوں پر ایک سے دد ارب پیسو کی شرطیں لگائی جاتی ہیں۔

مرغوں کی لڑائی سے فلپائن کے باشندوں کے جنون کا یہ عالم ہے کہ کرونا وائرس کا زور ٹوٹتے ہی مقامی حکومتوں نے جن اولین چیزوں پر سے پابندیاں اٹھائیں، ان میں مرغوں کی لڑائی کے اکھاڑے بھی تھے۔

حکومت کا کہنا تھا کہ یہ اجازت لاکھوں شہریوں کو خوشی اور سکون مہیا کرنے کے لیے دی جا رہی ہے۔مرغوں کی لڑائی میں گہری دلچسپی رکھنے والے 45 سالہ ڈونگ ڈونگ کلیرنور کا کہنا ہے۔ پابندی نے ہمیں بہت دکھی کر دیا تھا۔ ہماری زندگیوں سے خوشیوں کے لمحات ختم ہو گئے تھے۔ پابندی اٹھنے کے بعد صرف میں ہی نہیں ہر فلپینی بہت خوش ہے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG