پاکستان میں کچھ لوگ میڈیا سنسرشپ کی شکایت کر رہے ہیں۔ رپورٹروں کی خبریں، تجزیہ نگاروں کے کالم اور اینکرپرسنز کے ٹاک شوز روکے جا رہے ہیں۔ چند خاص معاملات پر بات کرنا منع ہے اور سوشل میڈیا کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ ان حالات میں ایڈیٹوریل کارٹونسٹ کیا سوچتے ہیں اور کیسے کام کر رہے ہیں؟ ’وائس آف امریکا‘ کے لیے مبشر علی زیدی نے چار بڑے کارٹونسٹس سے بات کی۔ جاوید اقبال کے بعد فیکا سے گفتگو پیش کی جا رہی ہے۔ ظہور کا انٹرویو کل ملاحظہ کیجیے۔
پاکستان میں صحافت اور سیاسیات کا کون سا طالب علم ہے جو فیکا کو نہیں جانتا۔ وہ 35 سال سے ایڈیٹوریل کارٹون بنا رہے ہیں۔ ’ڈان‘ اور ’ہیرلڈ‘ میں ان کے بنائے ہوئے خاکے چھپتے ہیں۔ بڑے سیاسی رہنما ان کے بنائے ہوئے اپنے کارٹون دیکھ کر ہنستے ہیں۔ لیکن فیکا اپنے کارٹون کے ذریعے سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔
کیا فیکا کے کارٹون کبھی روکے جاتے ہیں؟ فیکا کہتے ہیں کہ اس وقت ملک کے جو حالات ہیں، اس میں اپنے اخبار کا خیال کرنا پڑتا ہے۔ میں اپنے ایڈیٹر کا بھی خیال کرتا ہوں، صحافتی اخلاقیات کا بھی لحاظ رکھتا ہوں۔ کوشش کرتا ہوں کہ ایسی چیز دوں جو چھپ جائے۔ اس کے باوجود بعض اوقات کارٹون نہیں چھپتا۔
اخبار میں کام کرنے کا مطلب ہے کہ کارٹونسٹ کو دیدہ و نادیدہ سنسرشپ کا لحاظ رکھنا پڑتا ہوگا؟ فیکا نے کہا کہ کام کرتے ہوئے میں نے کبھی خود کو سنسر نہیں کیا۔ میں آزاد منش آدمی ہوں اور اپنی مرضی سے کام سے کرتا ہوں۔ یہ ایڈیٹر پر منحصر ہے کہ وہ کارٹون چھاپے یا نہ چھاپے۔ لیکن میں اپنے آپ کو روکتا نہیں ہوں۔ میں اس بات کا بھی حساب نہیں رکھتا کہ میری کتنی چیزیں رک گئیں اور کتنی چھپ گئیں۔ میرے اسٹوڈیو میں ایسی چیزوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جو ہمارا معاشرہ برداشت نہیں کرسکتا۔
لیکن اخبار کی پالیسی کا خیال تو کرنا پڑتا ہے؟ فیکا کا کہنا ہے کہ اخبار کی پالیسی کوئی تحریری دستاویز نہیں ہوتی۔ میں 30 سال سے صحافت میں ہوں اس لیے مجھے علم ہے کہ میرا اخبار کہاں تک جا سکتا ہے، کہاں تک برداشت کرسکتا ہے۔ ڈان بہت لبرل اخبار ہے اور میں اسی لیے یہاں سر چھپا کر بیٹھا ہوں کہ یہ آزادی فراہم کرتا ہے۔
کیا ایڈیٹر اپنے آئیڈیا پر کارٹون بنانے کے لیے کہتا ہے؟ فیکا نے کہا کہ یہ ایڈیٹر کا حق ہے کہ میرے ساتھ آئیڈیا پر بات کرتے۔ وہ مجھے کہتے ہیں کہ فیکا صاحب! یہ آئیڈیا ہم ڈر کرسکتے ہیں۔ ایڈیٹر حتمی فیصلہ کرنے والا شخص ہوتا ہے۔ جو مجھے چھاپتا ہے، وہ میرے لیے لائق احترام ہے۔
فیکا نے بتایا کہ وہ روزانہ کئی اخبار پڑھتے ہیں، اہم خبریں سامنے رکھتے ہیں، سیاسی حالات و واقعات کے بارے میں سوچتے ہیں اور اپنے کمپیوٹر پر دنیا بھر میں آرٹ کے رجحانات بھی دیکھتے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی سے متاثر نہیں ہوتے اور ہمیشہ اوریجنل آئیڈیا لاتے ہیں۔
ڈان میں ظہور بھی کارٹون بناتے ہیں۔ کیا ان سے مقابلہ چلتا ہے؟ اس سوال پر فیکا نے قہقہہ لگایا۔ ہنستے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کارٹونسٹس ہیں ہی کتنے؟ پانچ چھ یا سات ہوں گے۔ ہمارے درمیان کوئی مقابلے بازی نہیں۔ جاوید اقبال دوست ہیں۔ ظہور اور صابر نذر میرے چھوٹے بھائی جیسے ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں اور دل کی باتیں کرتے ہیں۔