ایک عام تعریف کے مطابق کارٹون کردار مزاح کے اثر کے ساتھ کسی شخص کی تصویری نمائندگی کرتے ہیں لیکن جب کوئی کارٹون کردار روزمرہ کے معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنے کی خدمت انجام دیتا ہے تو ہمارے ذہنوں میں کارٹون گوگی کا خیال آتا ہے جو پاکستان کی پہلی پیشہ ور کارٹونسٹ نگار نذر کے قلم کی تخلیق ہے۔
کارٹونسٹ نگار نذر دہائیوں سے اپنے مشہور سلسلہ وار کارٹون گوگی کی مدد سے بچوں اور بڑوں کو ہنسا رہی ہیں اور اپنی کامک اسٹرپ یا بیانیہ کارٹون کے ذریعے معاشرے کی فکری تربیت میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
باسٹھ سالہ مصورہ کے بیانیہ کارٹون پچھلے 40 سالوں سے پاکستان کے اخبارات اور رسائل میں چھپتے رہے ہیں جب کہ سلسلہ وار کارٹون گوگی دنیا بھر کے اخبارات اور رسائل کا ایک مقبول کامک اسٹرپ ہے۔
نگار نذر گوگی اسٹوڈیو کی چیف ایگزیکٹیو ہیں۔ ان کا گوگی کارٹون 1971 میں پہلی بار کراچی انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈ کرافٹس کے سالانہ میگزین میں شائع ہوا تھا۔
سلسلہ وار بیانیہ کارٹون کا مرکزی کردار گوگی پاکستان کی ایک شہری عورت ہے جس کی نظر روزمرہ کی زندگی کے سماجی مسائل اور معاشرے میں پھیلے صنفی امتیاز پر مرکوز ہے جبکہ وہ ہنسی مذاق کے انداز میں معاشرے کی منافقت کو ہرانے کی کوشش کرتی ہے۔
اس کارٹون کی ہیروئن گوگی ایک چھوٹے بالوں، لمبی پلکوں والی ایک کھلے ذہن کی بہادر پاکستانی عورت ہے جو بڑے بڑے پولکا ڈاٹس کا لباس پہنتی ہے۔
نگار نذر نے پری میڈیکل میں انٹر کرنے کے بعد گریجویشن کے لیے فائن آرٹ کا شعبہ منتخب کیا۔ انھوں نے یونیورسٹی آف پنجاب لاہور سے فائن آرٹس میں گریجویشن کیا اور آسٹریلیا کی کینبرا یونیورسٹی میں فائن آرٹس کے کورس میں شرکت کی ہے۔
وہ 2002ء میں اوریگن یونیورسٹی کے آرٹ ڈپارٹمنٹ میں فل برائیٹ طالبہ تھیں جبکہ کولوراڈو کالج میں فل برائیٹ وزیٹنگ اسپشلسٹ رہی ہیں۔
ان کے بعض کارٹون حساس موضوعات کے بارے میں ہیں جیسا کہ ایک کارٹون میں گوگی یہ معلوم کرتی ہے کہ پاکستان میں کتنے لوگ بیٹوں کی پیدائش کے علاوہ بیٹیوں کی پیدائش پر بھی خوشیاں مناتے ہیں۔
اس کے علاوہ بچوں کی تعلیم اور ماحولیاتی تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے بھی انھوں نے کارٹونوں کے استعمال پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔
آرٹو کرافٹ ویب سائٹ کے مطابق انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ جب اخبارات میں کارٹون گوگی چھپنے لگا تو لوگوں نے اس کردار کو بےحد پسند کیا۔ مثال کے طور پر اس کردار کے ساتھ سب ہی ہنس رہے تھے اور جو نہیں بھی ہنس رہے تھے وہ مذاق سے لطف اندوز ہو رہے تھے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اگر کوئی چیز مزاحیہ ہے تو اس کے لیے صنف کا سوال نہیں اٹھتا ہے اور اس طرح کے کارٹون سے لوگ عام طور پر لطف اندوز ہوتے ہیں۔
انھوں نے شدت پسندی، خواتین کے احترام، صحت و صفائی اور ابتدائی طبی امداد سمیت دیگر موضوعات پر بچوں کے لیے 17 کامک بکس یا باتصویر کتابیں تیار کی ہیں جنھیں حکومت پاکستان کی طرف سے تقسیم کیا گیا ہے۔
انھوں نے 2004ء میں عوامی مقامات پر لوگوں کے آداب بہتر بنانے کی ایک مہم کے حصے کے طور پر 12 پبلک بسوں کے لیے کارٹونوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
ان کے کارٹونوں پر مشتمل تین کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ اسی طرح کئی کیلنڈروں، بروشروں، ڈائریوں اور پوسٹرز پر بھی ان کے کارٹونوں کو شائع کیا گیا ہے۔
محترمہ نگار نذر کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں حکومت پاکستان کی طرف سے فاطمہ جناح ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
ان کی حیرت انگیز کاوشوں کو بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کرغستان کے ایک یتیم خانے میں ان کے کام کے لیے انھیں یونیسکو کے بوکر انعام سے نوازا گیا ہے۔