داعش کے شدت پسند گروپ کے خلاف لڑائی کے دوران امریکی قیادت میں کی جانے والی فضائی کارررائیوں میں امریکہ ہمیشہ یہ خیال برتتا ہے کہ شہری ہلاکتیں نہ وزقع ہوں، جس بات پر عراقی افواج سوال اٹھاتے ہیں۔
امریکی فضائی طاقت کی حمایت کے ساتھ، عراقی افواج داعش سے رمادی کے عراقی شہر کا کنٹرول واپس لینے کی کوشش کر رہی ہیں۔
رمادی کے مضافات میں ہفتوں سے جاری لڑائی میں، عراقی سلامتی افواج نے منگل کو دریائے فرات پار کیا، اور شہر کے وسط کی جانب پیش قدمی کی۔ اُن کا ہدف داعش کے 20 سے 300 لڑاکوں کو پسپا کرنا ہے۔
خطے کے لیے بتایا جاتا ہے کہ یہاں متعدد عمارات اور پتلی گلیاں ہیں جہاں بارودی سرنگوں اور دیسی ساختہ آتشیں مواد کے نصب آلات کا خدشہ ہے۔
ہزاروں شہریوں، یہ تعداد لاکھوں پرمبنی بھی ہو سکتی ہے، یا تو پھنسے ہوئے ہیں یا پھر انسانی ڈھال کی سی حرفت دکھا سکتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں شاید ہی فضائی حملہ کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔
’آپریشن انہیرنٹ رزالو‘ کے ترجمان، کرنل اسٹیو وارن نے اِسی ہفتے بغداد سے پینٹاگان کے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ، ’ہم حملہ نہیں کریں گے جب تک ہمیں یہ خدشہ ہو کے ایسا کرنے سے کافی انسانی جانیں ضائع ہوسکتی ہیں‘۔
امریکہ کے اس طرز عمل کے ناقدین، جو خود بھی شہری ہلاکتوں کا ڈر رکھتے ہیں، یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ پالیسی تنگ نظری پر مبنی ہے۔
بل روجیو، واشنگٹن میں قائم ایک تحقیقی اور تعلیمی گروپ، ’فائونڈیشن فور ڈفنس آف ڈیموکریسی‘ کے بقول، اگر آپ عمارتوں کے ڈر سے بم نہیں مار سکتے اور اُنھیں تباہ نہیں کرسکتے، تو پھر آپ کو سرزمین پر قدم رکھ کر ایسا کرنا پڑے گا۔ ذرہ سوچیں؟ بندوق اور بڑے دہانے والی گولہ باری سے بھی لوگ ہی ہلاک ہوتے ہیں‘۔
بقول اُن کے، ’اگر آپ ایسا نہیں کرتے، تو آپ عراقی فوجوں کا بھی زیادہ نقصان کریں گے‘۔
روجیو نے کہا کہ’ ہمیں پریشانی یہ ہے کہ امریکی فوج اور سیاسی قیادت کو مقصد حاصل کرنے سے اتنی غرض نہیں جتنی فکر نزاکتوں پر صرف ہوتی ہے‘۔