آج ذکر ہو رہا ہے اردو کےنامور شاعر، اورنگزیب خان کا۔
’جب بھی آتا ہے میرا نام تیرے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ میرے نام سے جل جاتے ہیں‘
آپ چونک گئے ہوں گے کہ یہ شاعر کون ہے؟ یہ ہیں قتیل شفائی، جِن کا اصل نام اورنگزیب خان تھا۔ آپ 24دسمبر 1919کو ہری پور ہزارہ میں پیدا ہوئے۔
’بانٹ رہا تھا جب خدا سارے جہاں کی نعمتیں
اپنے خدا سے مانگ لی میں نے تیری وفا صنم‘
کم عمری میں ہی والد کا سایہ سرسے اُٹھ گیا اور آپ کو مجبوراً تعلیم کو خیرباد کہہ کر زندگی کی گاڑی کو کھینچنا پڑا۔ چھوٹی عمرہی میں کھیلوں کے سامان کی دکان بنائی۔ جب کاروبار چل نکلا تو آپ نے راولپنڈی آنے کا سوچا جہاں ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں نوکری شروع کی اور 60روپے ماہانہ کمانے لگے۔قتیل شفائی 11جولائی ، 2001ء کو اِس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
’حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گِرتا
ٹوٹے بھی جو تارہ تو زمیں پر نہیں گِرتا‘
۔۔۔
’اے دِل کسی کی یاد میں
ہوتا ہے بے قرار کیوں‘
سنہ 1946میں نذیر احمد نےآپ کو لاہور بلایا اورماہنامہ ’ ادبِ لطیف‘ میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر کے کام کرنے کو کہا۔
’آ میرے پیار کی خوشبو
منزل پہ تجھے پہنچائے
آ میرے پیار کی خوشبو‘
ہفت روزہ اسٹار میں آپ کی پہلی غزل چھپی، اِس کے بعد آپ کو ایک فلم کے گیت لکھنے کو کہا گیا۔
آپ نے پہلی مرتبہ فلم ’تیری یاد‘ کے گیت لکھے۔ اِس کے بعد یہ سفر آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا۔
’حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
اُن کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں‘
نغمہ نگار کے طور پر اُنھوں نے کئی ایوارڈ جیتے۔
قتیل شفائی نے جگ جیت چِترا اور غلام علی کے ساتھ کئی البمز پر کام کیا۔
اُنھیں سنہ 1994میں ’پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ اِس کے علاوہ، قتیل شفائی نے آدم جی ایوارڈ، نقوش ایوارڈ، اباسین آرٹ کونسل ایوارڈ اور امیر خسرو ایوارڈ بھی حاصل کیے۔
آپ کی شاعری کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔
قتیل شفائی نے اپنی مادری زبان ہندکو میں ایک فلم بھی پروڈیوس کی، جو ہندکو کی پہلی فلم تھی، جِس کا نام تھا ’قصہ خوانی‘، جو 1980ء میں رلیز ہوئی۔
لاہور میں جہاں آپ کا قیام تھا اُس سڑک کو قتیل شفائی اسٹریٹ اور ہری پور میں جہاں وہ رہتے تھے محلہ قتیل شفائی کہا جاتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں اُن کی شاعری کوشامل کیا گیا ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: