1960 اور 1970 کی دہائی کے معروف فلمی اداکار اور فلمساز اعجاز درانی طویل علالت کے بعد 86 سال کی عمر میں انتقال کر گئے. انہوں نے نہ صرف 150 کے قریب اردو اور پنجابی فلموں میں اداکاری کی بلکہ کئی کامیاب فلمیں بھی پروڈیوس کیں جس میں سپر ہٹ پنجابی فلم 'ہیر رانجھا' بھی شامل ہے۔
اعجاز درانی 18 اپریل، 1935 کو متحدہ ہندوستان کے شہر جلال پور جٹاں کے قریب ڈسٹرکٹ گجرات کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ جہلم سے بی اے پاس کرنے کے بعد وہ لاہور آ گئے اور 21 سال کی عمر میں فلم 'حمیدہ' کے ذریعے فلم نگری میں قدم رکھا اور پھر یہیں کے ہو گئے۔
ایک جاذبِ نظر شخصیت ہونے کی وجہ سے ان کو اس زمانے کے اداکاروں میں منفرد مقام حاصل تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ چند ہی سالوں میں ان کا شمار ملک کے ٹاپ اداکاروں میں ہونے لگا تھا۔ اپنے کریئر کے آغاز میں ہی انہوں نے اپنے وقت کی مقبول ترین اداکارہ میڈم نورجہاں سے شادی کر لی تھی جس کے بعد ملکہ ترنم نے اداکاری چھوڑ کر صرف گلوکاری پر توجہ مرکوز کر لی تھی۔
1960 کی دہائی میں ان کی ازدواجی زندگی اور فلمی سفر دونوں عروج پر تھے اور نئے اداکاروں کی آمد کے باوجود اعجاز درانی نے کئی ہٹ فلمیں دیں جن میں'شہید'، 'بدنام'، 'لاکھوں میں ایک'، 'بہن بھائی' اور 'زرقا' شامل تھیں۔
'زرقا' نہ صرف پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم ثابت ہوئی بلکہ اس میں اعجاز کی اداکاری کو سب نے پسند کیا۔ 'بہن بھائی' میں بھی ساتھی اداکاروں ندیم، اسلم پرویز، کمال، رانی اور دیبا کی موجودگی میں انہوں نے منفی کردار ادا کیا اور سب پر بھاری ثابت ہوئے۔
'لاکھوں میں ایک' ویسے تو شمیم آرا کی لازوال اداکاری اور مصطفیٰ قریشی کی پہلی فلم ہونے کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے لیکن اس میں اعجاز کا کردار سب کوبے حد پسند آیا۔ 'بدنام' کا ذکر آتے ہی لوگوں کا خیال 'کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے' پر جاتا ہے لیکن اس فلم میں علاؤالدین کے سامنے اعجاز کا اپنی موجودگی کا احساس دلانا بھی ان کی کامیابی تھی۔
انہوں نے 70 کی دہائی کا آغاز بھی کامیابی سے کیا نہ صرف کراچی میں پلاٹینیم جوبلی کرنے والی پہلی پنجابی فلم 'انورہ' میں ان کا کام سب کو پسند آیا بلکہ اسی سال اپنی ہوم پروڈکشن 'ہیر رانجھا' میں انہوں نے رانجھے کا کردار ادا کر کے ہمیشہ کے لیے رانجھا بن گئے۔
'ہیر رانجھا' میں فردوس کے ساتھ ان کی جوڑی سب کو پسند آئی اور اس کے گانے آج بھی پسند کیے جاتے ہیں۔
'ہیر رانجھا' کی کامیابی کے بعد اعجاز کا شمار صفِ اول کے فلم سازوں میں ہونے لگا۔ اگلے ہی سال انہوں نے 'دوستی' پروڈیوس کر کے پاکستان کو دوسری اُردو ڈائمنڈ جوبلی فلم بھی دے دی۔ اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ لندن میں ہوئی تھی اور اس میں ان کے ساتھ اداکار رحمان اور شبنم تھے۔
فلم کا گانا 'چٹھی زرا سیاں جی کے نام لکھ دے' آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ ستر کی دہائی کے آغاز میں میڈم نورجہاں نے ان سے طلاق لے لی اور اعجاز کا نام ان کی آن اسکرین ہیر فردوس بیگم کے ساتھ جوڑا جانے لگا۔ لیکن انہوں نے فلم 'دوستی' کے ہدایت کار شریف نیر کی بیٹی سے شادی کر لی جو آخر تک قائم رہی۔
انہوں نے اپنے کریئر کے دوران تمام نام ور اداکاروں کے ساتھ کام کیا جس میں سنتوش کمار، اسلم پرویز، آغا طالش، علاؤ الدین، وحید مراد، محمد علی، ندیم، مصطفیٰ قریشی اور رحمان کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ 20 سالہ کریئر میں وہ تمام مشہور اداکاراؤں کے ساتھ بھی اسکرین پر جلوہ گر ہوئے جس میں مسرت نذیر، نیلو، شمیم آرا، شبنم، دیبا، رانی اور فردوس شامل ہیں۔
یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ان کے مقابل 'ہیر رانجھا 'میں ہیر اور 'مرزا جٹ' میں صاحباں کا کردار ادا کرنے والی فردوس بیگم کا انتقال بھی دو ماہ قبل لاہور میں ہوا۔
اعجاز درانی ایک اداکار و فلم ساز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب بزنس مین بھی تھے۔ ان کا شمار ان چند فلمی شخصیات میں ہوتا ہے جو اداکاری اور فلم سازی کے ساتھ ساتھ سنیما کے مالک بھی رہے۔ لاہور اور راولپنڈی میں واقع سنگیت سنیما انہی کی ملکیت تھی۔
اسی کی دہائی میں جب ان کے ہم عصر یا تو بڑی عمر کے کردار کر رہے تھے یا ریٹائر ہو چکے تھے۔ اعجاز درانی نے پنجابی فلم 'شعلے' اور 'مولا بخش' پروڈیوس کیں جو باکس آفس پر کامیاب ہوئیں۔
بحیثیت اداکار ان کی آخری فلم 'جھومر چور' تھی جو 1986 میں ریلیز ہوئی جس میں ان کے ساتھی اداکار جاوید شیخ اور شبنم تھے۔ اس فلم کے ہدایت کار ان کے سسر شریف نیر تھے۔ اس فلم کے بعد انہوں نے شوبز سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔
ان کے انتقال پر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی نام ور شخصیات نے دکھ کا اظہار کیا جس میں معروف صحافی اور ان کے دوست قمر احمد، اداکار فیصل قریشی اور دیگر افراد شامل ہیں۔