پاکستان کے مرکزی فلم سنسر بورڈ نے معروف ہدایت کار شعیب منصور اور اداکارہ ماہرہ خان کی فلم ‘ورنہ’ کو نمائش کی اجازت دیدی ہے۔
مرکزی فلم سنسر بورڈ کے چئیرمین مبشرحسن نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفت گو کرتے ہوئے، ‘ورنہ’ کو نمائش کی اجازت ملنے کی تصدیق کرتے کی۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’ادارے کے فل بورڈ نے قابل اعتراض مواد حذف کرنے کے بعد نمائش کی اجازت دیدی ہے‘‘۔
اس سوال پر کہ فلم میں کون سا مواد قابل اعتراض تھا، مبشر حسن نے بتایا کہ قابل اعتراض مواد یہ تھا کہ فلم کے کچھ حصے میں ریاست کے اداروں اور اہلکاروں کو حقائق سے ہٹ کر منفی انداز میں دکھایا گیا تھا، جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیاں زائل کرنے کا تاثر ملتا تھا۔ اس لیے، فیصلہ کیا گیا کہ جس مواد سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حوصلہ شکنی ہو، ایسے مواد کو سینسر بورڈ کے فل بورڈ کے اکثریتی ارکان نے نکالنے کا فیصلہ کیا۔
مبشر حسن نے کہا کہ سنسر بورڈ سمجھتا ہے کہ فلم آزادی اظہار رائے کا ذریعہ ہے اور اس پر کسی قسم کی قدغن نہیں لگائی جا رہی۔ ہم تمام شہریوں کے حقوق اور آزادیوں کا احترام کرتے ہیں۔
صوبوں کی طرف سے اجازت ملنے اور مرکزی بورڈ کی طرف سے اجازت نہ ملنے کے معاملے پر مبشرحسن کا کہنا تھا کہ صوبائی سنسر بورڈ صوبوں کے ماتحت کام کرتے ہیں، اٹھارویں ترمیم کے بعد ان کو اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سینسر شپ کوڈ 1980 کے مطابق، قانون کی رو سےفلم کو پرکھا جاتا ہے اور کوئی بھی ایسا مواد دکھانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو پاکستان کی سالمیت، معاشرتی اقدار اور ریاستی و قومی اداروں کا منفی تاثر ابھرتا ہو۔
ماہرہ خان کی فلم ‘ورنہ’ ریپ کے موضوع پر بنائی گئی ہے اور فلم سنسر بورڈ نے اس کی نمائش کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا جس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ فلم میں ریپ کا ملزم پاکستان کے صوبہٴ پنجاب کے گورنر کا بیٹا دکھایا گیا ہے۔ سنسر بورڈ ارکان کا اعتراض تھا کہ اسی صوبہ کا ایک گورنر ماضی میں متنازعہ وجوہات کی بنا پر قتل کیا جا چکا ہے۔
لہذا، ایسی کہانی سے صوبہ میں امنِ عامہ کا مسئلہ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ تاہم، سوشل میڈیا کے دباؤ کے بعد مرکزی سنسر بورڈ کے فل بورڈ نے فلم دیکھنے اور کچھ حصے حذف کرنے کے بعد اس فلم کی نمائش کی اجازت دیدی ہے۔
یہ فلم 17 نومبر سے نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔