معروف سماجی رکن اور وکیل جبران ناصر جمعے کی شب گھر پہنچ گئے ۔ پولیس حکام کے مطابق پولیس کی ایک ٹیم ان سے ملاقات کرے گی۔
جبران ناصر کو گزشتہ شب ڈیفیس کے علاقے سے رات گئے نامعلوم افراد نے اس وقت گاڑی روک کر مبینہ طور پر اغواء کیا جب وہ اپنی اہلیہ منشا پاشا کے ساتھ عشائیے سے گھر لوٹ رہے تھے۔
سوشل میڈیا پر اپنے ویڈیو پیغام میں ان کی اہلیہ منشا نے واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ جمعرات کی شب وہ اپنے شوہر کے ساتھ کار میں سوار تھیں کہ دو گاڑیوں نے جن میں ایک سفید بڑی گاڑی (ویگو) شامل تھی ان کی گاڑی کا راستہ روکا۔ ان گاڑیوں میں سے تقریبا 10 سے 15 افراد جن کے ہاتھ میں پستول تھی، زبردستی جبران ناصر کو اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔
واقعے کے بعد جبران ناصر کے اہلخانہ نے رات گئے ایف آئی آر کٹوانے کی کوشش کی اور تھانہ کلفٹن میں ان کی اہلیہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔
صحافی اور سماجی کارکن اسد علی طور نے اپنی ایک ٹویٹ میں ان کی واپسی کا خیرمقدم کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جبران ناصر کی بازیابی پر وزیر اعلی سندھ کے مشیر مرتضی وہاب کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے یہ خوش آئند بات ہے کہ جبران بحفاظت اپنے گھر لوٹ آئے ہیں۔ مجھے رات ساڑھے آٹھ بجے ان کے اہل خانہ کی جانب سے اطلاع ملی کہ وہ گھر آ گئے ہیں۔ میں پولیس سے رابطے میں ہوں پولیس کا کہنا ہے کہ جیسے ہی جبران بات کرنے کی بہتر حالت میں ہوں گے وہ ان سے واقعے کی تفصیل جانے گے کہ ان کے ساتھ گزشتہ شب کیا ہوا تھا۔
اس سوال پر کہ کیا حکومت اغواء کاروں کے حوالے واقعی لاعلم تھی؟ صوبائی حکومت کی جانب سے دباؤ کے نتیجے میں جبران گھر لوٹے ہیں یا انہیں لے جانے والے خود چھوڑ گئے ہیں؟ مرتضی وہاب کا کہنا تھا کہ ابھی وہ اس حوالے سے بات نہیں کرسکتے۔ جب تک پولیس جبران ناصر سے خود بات نہیں کرلیتی، کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ ہمیں جب اس واقعے کا معلوم ہوا تو ہم نے مذمت بھی کی اور ایف آئی آر درج کرنے کو کہا بلکہ جہاں یہ واقعہ پیش آیا وہاں کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کی ہے۔ میں اس بات پر خوش ہوں کہ ایک ماں کا بیٹا اور منشا جو ہماری بہن کی طرح ہیں ان کا شوہر گھر لوٹ آیا ہے۔ جبران نہ صرف ایک اچھا وکیل ہے بلکہ ایک بہتر پولیٹکل ورکر بھی ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے ٹوئٹر پر ایف آئی آر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ جبران ناصر کا پتا لگانے اور ان کی بحفاظت واپسی کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ایف آئی آر جبران ناصر کی اہلیہ منشا پاشا کی مدعیت میں درج کی گئی ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعرات کو 10 سے 15 نامعلوم افراد ان کے شوہر کو اغوا کرکے لے گئے ہیں۔
جبران ناصر کی باحفاظت واپسی تو آج رات ہو گئی لیکن اس واقعے کے خلاف جمعہ کی شام کراچی پریس کلب کے باہر ان کی بازیابی کے لیے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے ایک احتجاج بھی کیا گیا جس میں سول سوسائٹی کے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
اس موقع پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جوائنٹ ایکشن کمیٹی فار ہیومن رائٹس کی کو آرڈینیٹر مہناز رحمان کا کہنا تھا کہ جبران ناصر انسانی حقوق کے لیے لڑتے ہیں ۔ انھیں جس طرح سے اغواء کیا گیا یہ ہم سب کے لیے بہت تکلیف دہ اور تشویشناک ہے۔ ہمارا مطالبہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ جو بھی ریاست کرنا چاہتی ہے وہ آئین اور قانو ن کے مطابق کرے ۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ آپ ایک آزاد شہری کو ایسے اٹھا لیں اور یہ پتہ ہی نہ چلے کہ اس کا قصور کیا ہے۔ یہ ہم سب کے لیے ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔
تحریک نسواں کی سربراہ اور سماجی رکن شیما کرمانی نے بھی احتجاج میں شرکت کی۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ جبران ناصر جو اصل میں انسانی حقوق کے لیے لڑنے والے لوگ ہیں ان کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ایک جمہوری ریاست میں کسی کو اس طرح سے لاپتہ کر دینا یہ جمہوری حقوق کے خلاف ہے۔
شیما کرمانی کے مطابق یہ واقعہ انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو ڈرانے کی ایک سازش ہے تاکہ وہ مستقبل میں کسی قسم کی تنقید نہ کریں۔ یہ سب نہیں چل سکتا کیونکہ ہم لوگ ہمہ وقت تیار ہیں۔ ہم اپنی جان خطرے میں ڈال کر آواز اٹھاتے رہیں گے یہ ہمیں ایسے نہیں ڈرا سکتے جبران ہماری آواز ہے۔
سوسائٹی کی نمائندگی کرنے والوں کی جہاں بڑی تعداد اس احتجاج کا حصہ تھی وہیں اس میں وہ کم عمر لڑکیاں بھی شامل تھیں جنھیں جبری تبدیلی مذہب اور شادی کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے کیسز جبران ناصر لڑ رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ جبران ناصر کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
جمعرات کی شب جبران ناصر کے مبینہ اغوا کے خلاف ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ #ReleaseJibranNasir ٹاپ ٹرینڈ کر رہا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی)نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ وکیل اور ایکٹوسٹ جبران ناصر کو نامعلوم مسلح افراد کی جانب سے اغوا کیے جانے کی اطلاعات پر شدید تحفظات ہیں۔
ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا کہ ان کی فوری بحفاظت واپسی یقینی بنائی جائے اور اغوا کاروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
جبران ناصر انسانی حقوق کی ایک توانا آواز سمجھے جاتے ہیں۔ وہ جبری گمشدگیوں، کم عمر ی کی شادیوں، جبری تبدیلی مذہب جیسے مسائل پر نہ صرف کھل کر بات کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں بلکہ وہ ان کے کیسز بھی لڑتے ہیں۔
حال ہی میں نو مئی کے واقعات کے بعد فوجی عدالتوں میں چلنے والے کیسز اور گرفتاریوں پر جبران ناصر نے تنقید کی تھی۔ لیکن ان کے مبینہ اغواء کے پیچھے کیا مقاصد تھے اور انھیں کون لوگ لیکر گئے اس کے بارے میں ابھی کچھ بھی واضح نہیں ہوسکا۔