امریکہ کے محکمہ دفاع کے تحقیق کاروں نے جمعرات کو ایک رپورٹ شائع کی جس میں پنسلوینیا کی ایک خاتون میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والے ایک بیکٹیریا کی موجودگی کی تصدیق کی گئی ہے۔ یہ خاتون گزشتہ ماہ ایک فوجی شفاخانے میں علاج کے لیے آئی تھیں۔
امریکہ کے بیماریوں کے کنٹرول اور بچاؤ کے مرکز ’سی ڈی سی‘ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ٹام فریڈن نے کہا ہے کہ اس دریافت کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارا اینٹی بائیوٹکس ادویہ کے ساتھ سفر کا اختتام ہونے کو ہے، جن پر ہم نے کئی سالوں تک انحصار کیا ہے۔
ٹام فریڈن اور صحت کے دیگر حکام طویل عرصہ سے اینٹی بائیوٹکس کے زیادہ استعمال کے خلاف متنبہ کرتے رہے ہیں جس نے ’’سپر بگ‘‘ کہلانے والے جراثیم پیدا کرنے میں مدد دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنسلوینیا سے تعلق رکھنے والی خاتون کو پیشاب کی نالی میں انفیکشن ہے جو ہر اینٹی بائیوٹک دوا کے خلاف مزاحمت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت رکھنے والے ایسے بیکٹیریا کو سی ڈی سی عوامی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔
فریڈن نے کہا کہ ان کی تشویش صرف برے انفیکشن مثلاً نمونیا اور پیشاب کی نالی کے انفیکشن کے بارے میں نہیں بلکہ ہزاروں ایسے مریضوں کے لیے بھی ہے جن کے بارے میں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے ان کے انفیکشن کا علاج آسانی سے کر لیا جائے گا۔
ان میں چھ لاکھ وہ امریکی بھی شامل ہیں جنہیں ہر سال کینسر کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے جس کے دوران انفیکش کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔
فریڈن نے کہا کہ ایسے بیکٹیریا کے توڑ کے لیے کوئی دوا موجود نہیں۔
بیسویں صدی کے وسط میں اینٹی بائیوٹک ادویات کی ایجاد سے طب کے شعبے میں انقلابی تبدیلی آئی تھی اور ان کے استعمال سے آپریشن کرنا آسان ہو گیا تھا۔
اگر اینٹی بائیوٹک کے ذریعے انفیکشن پر قابو نہ پایا جا سکے تو لوگ چھوٹے زخموں اور آپریشن سے ہی موت کے منہ میں چلے جائیں۔
بیکٹیریا جرثومے مسلسل ارتقائی عمل سے گزر رہے ہیں اور جو بیکٹریا ایسی دواؤں سے بچ جاتے ہیں جو انہیں مارنے کے لیے بنائی گئی ہیں وہ اپنی نسل آگے بڑھاتے ہیں۔
اینٹی بائیوٹک کا غیر ضروری استعمال ایسے جراثیم پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے جو اینٹی بائیوٹک سے مزاحمت رکھتے ہیں۔
یہ مسئلہ اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے جب اکثر لوگ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ اینٹی بائیوٹک صرف بیکٹریا کے انفیکشن کے خلاف مؤثر ہوتی ہیں مگر وائرس سے پیدا ہونے انفیکشن میں نہیں، مثلاً سردی اور زکام وغیرہ میں۔
سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ ہر سال 20 لاکھ افراد ایسے جراثیم سے متاثر ہوتے ہیں جو دواؤں کے خلاف مزاحمت رکھتے ہیں۔ ان میں سے 23 ہزار انفیکشن کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں کروڑوں افراد پیچس، نمونیا اور پیشاب کی نالی کے ایسے انفیکشن سے متاثر ہو رہے ہیں جس کا علاج ناممکن ہے یا بہت مشکل ہے۔