رسائی کے لنکس

کرم: امدادی سامان پر مشتمل ٹرکوں کا قافلہ پاڑہ چنار پہنچ گیا


  • خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلی کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے سامان پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔
  • قافلے میں شامل 10 ٹرکوں میں بگن قصبے کے 23 اور 24 نومبر کے درمیانی شب کے واقعے میں متاثرین کے لیے امدادی سامان بھی شامل ہے۔
  • سامان کے یہ 40 ٹرک اس قافلے کا حصہ تھے جو چار دسمبر ہفتے کی صبح کوہاٹ سے پاڑہ چنار اور کرم کے مختلف علاقوں کے لیے روانہ کر دیے گئے تھے۔

پشاور -- تیس ٹرکوں پر مشتمل امدادی سامان خیبرپختونخوا کے مرکزی شہر پاڑہ چنار پہنچ گیا ہے۔ ڈھائی ماہ بعد پہنچنے والے اس سامان میں اشیائے ضروریہ شامل ہیں۔ حکام کے مطابق 10 ٹرک بگن بھی پہنچ گئے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلی کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے سامان پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔

کرم کے مرکزی انتظامی شہر پاڑہ چنار سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی علی افضال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سخت زمینی اور فضائی سیکیورٹی میں یہ قافلہ پاڑہ چنار پہنچ چکا ہے۔ تاہم پاڑہ چنار روڈ ابھی تک عام لوگوں کی آمدورفت اور تجارتی مقاصد کے لیے بند ہے۔

صدہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی محمد جمیل کہتے ہیں کہ قافلے میں شامل 10 ٹرکوں میں بگن قصبے کے 23 اور 24 نومبر کے درمیانی شب کے واقعے میں متاثرین کے لیے امدادی سامان ہے جو مقامی انتظامیہ کے ذریعے تقسیم کیا جائے گا۔

خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں فرقہ وارانہ کشیدگی تو گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ تاہم 21 نومبر کو مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے میں 45 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد 22 نومبر کو بگن سمیت ضلع کے مختلف مقامات پر جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں جس میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ان پرتشدد واقعات کے بعد علاقے میں صورتِ حال مزید خراب ہو گئی تھی اور راستوں کی بندش سے کرم میں اشیائے خورونوش اور ادویات کی قلت ہے۔

چند روز قبل کوہاٹ میں لگ بھگ ایک ماہ تک جاری رہنے والے گرینڈ جرگے نے امن معاہدے پر اتفاق کر لیا تھا۔ فریقین کی جانب سے 45، 45 افراد نے امن معاہدے پر دستخط کر دیے تھے۔

چودہ نکاتی معاہدے میں اسلحہ جمع کرانے، شاہراہوں کے تحفظ، فرقہ وارانہ واقعات کا خاتمہ، امن کمیٹیوں کے قیام، کالعدم تنظیموں کی حوصلہ شکنی جیسے نکات شامل تھے۔ تاہم مرکزی شاہراہ تاحال عوام کے لیے نہیں کھولی گئی۔

سامان کے یہ 40 ٹرک اس قافلے کا حصہ تھے جو چار دسمبر ہفتے کی صبح کوہاٹ سے پاڑہ چنار اور کرم کے مختلف علاقوں کے لیے روانہ کر دیے گئے تھے تاہم بگن کے مقام پر ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ محسود پر فائرنگ کے بعد یہ قافلہ تھل ھنگو کے مقام پر رک گیا تھا۔

یہ سامان ایسے وقت میں پہنچا ہے جب لوئر کرم کے مرکزی انتظامی قصبے صدہ میں مشران قوم کی گرفتاری کے خلاف مقامی قبائلیوں کا دھرنا اور احتجاج جاری ہے۔ تاہم ضلعی مرکز پاڑہ چنار میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والا احتجاجی دھرنا اتوار کی رات ختم کر دیا گیا ہے۔ حکام نے پاڑہ چنار کے احتجاجی دھرنے اور مظاہرے میں شرکت کرنے والے 200 کے قریب افراد کے خلاف مقدمات درج کر دیے ہیں۔

چار دسمبر کو جاری کردہ بیان میں وزیرِ اعلٰی کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر سیف نے کہا تھا کہ ان ٹرکوں میں اشیائے خورونوش سمیت دیگر ضروریات زندگی کا سامان ہے۔ یہ 40 ٹرک ان 80 ٹرکوں میں شامل ہیں جو پچھلے کئی دنوں سے ضلع ہنگو کے قصبے تھل کے مقام پر رکے ہوئے تھے۔

صدہ میں شٹر ڈاؤن

لوئر کرم کے بڑے تجارتی شہر صدہ کے صدر حاجی ارشاد اور دو دوسرے مشران علاقہ ملک سیف اللہ خان اورکزئی اور ملک سید رحمن منگل کی گرفتاری کے خلاف آج دوسرے روز بھی مکمل شٹر ڈاؤن رہا اور صدہ چوک میں شہریوں نے دکان داروں کے ساتھ مل کر احتجاج شروع کر دیا۔

دکان داروں کا مطالبہ ہے کہ جب تک تینوں عمائدین علاقہ کو غیر مشروط طور پر رہا نہ کیا گیا ہو دھرنا اور احتجاج جاری رہے گا۔

صدہ کے دھرنے اور احتجاج میں حصہ لینے کے لیے سینٹرل کرم ڈوگر سے بھی تقریباً 60 گاڑیوں پر مشتمل کثیر تعداد میں لوگ بدھ کے روز پہنچ گئے۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا ہے کہ ہم پرامن لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ حکومت کے ساتھ تعاون کیا ہے لیکن لگتا ایسا ہے کہ ہماری شرافت اور تعاون کو بزدلی سمجھا جارہا ہے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ اگر عمائدین کو رہا نہ کیا گیا تو حکومت کے ساتھ مزید تعاون نہیں کریں گے۔

فورم

XS
SM
MD
LG