افغانستان کے جنوب میں واقع طالبان کے زیرِ اثر سمجھے جانے والے شہر قندھار میں خواتین کے لیے ایک فٹنس سینٹر قائم کیا گیا ہے۔
قندھار میں عسکریت پسند گروہ طالبان کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ جب کہ طالبان خواتین کے حوالے سے قدامت پسندانہ سوچ اور نظریات رکھتے ہیں۔
اس مشکل صورتِ حال کے باوجود صوبے میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک خاتون کارکن مریم درانی طویل عرصہ وکالت میں صرف کرنے کے بعد اب ایک نئے پیشے سے منسلک ہو گئی ہیں۔ انہوں نے خواتین کے لیے ایک فٹنس سینٹر قائم کیا ہے۔
مریم درانی افغانستان کی دیگر خواتین کی طرح پردہ کرنے کی حامی ہیں اور وہ خود بھی برقعہ پہن کر گھر سے باہر جاتی ہیں۔
وہ خواتین کے لیے ایک ریڈیو اسٹیشن بھی چلاتی ہیں، جب کہ وہ ماضی میں صوبائی کونسل میں بھی خدمات انجام دے چکی ہیں۔ انہیں امریکہ کی سابق خاتون اول مشیل اوباما نے 2012 میں انٹرنیشنل ویمن آف کریج ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔
گزشتہ برس مریم درانی نے خواتین کے لیے ایک فٹنس سینٹر یا جم کھولنے کا ارادہ کیا تھا، جس میں تقریباً 50 خواتین کے لیے ایکسرسائز کرنے کی گنجائش موجود ہو۔
فٹنس سینٹر کے متعلق مریم درانی کا کہنا تھا کہ یہ سینٹر شروع کرنے پر خواتین کا ردِ عمل بہت مثبت تھا، کیوں کہ یہ ان کی ضرورت ہے لیکن مردوں کا ردِ عمل تکلیف دہ اور پریشان کن تھا۔
ان کے بقول مردوں نے عورتوں کے لیے فٹنس سینٹر کے قیام پر نہ صرف منفی ردِ عمل ظاہر کیا بلکہ میری توہین بھی کی۔ انہیں لگتا ہے کہ ہمارا کلب شریعت کے خلاف ہے۔
افغانستان میں طالبان 19 برس تک غیر ملکی افواج کے خلاف لڑتے رہے ہیں، جس کے سبب خواتین کو یہ خدشہ ہے کہ غیر ملکی فوجیوں انخلا کے بعد سیاسی اعتبار سے عسکریت پسند گروہ کے اثر و رسوخ میں اضافہ نہ ہو جائے۔
طالبان 1996 سے 2001 کے عرصے میں افغانستان میں برسرِ اقتدار رہے۔ اس دوران انہوں نے خواتین پر تعلیم کے دروازے بند کر دیے تھے۔ اسی طرح انہیں اپنے کسی مرد رشتے دار کے بغیر گھر سے نکلنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔
طالبان کا کہنا ہے کہ ان کے نظریات میں اب تبدیلی آ چکی ہے اور اب وہ خواتین کی تعلیم اور ملازمت کے خلاف نہیں رہے، لیکن بہت سی خواتین کے خدشات اب بھی موجود ہیں۔
مریم درانی کا کہنا ہے کہ مجھے خواتین کے حقوق سے متعلق نظریے پر تشویش ہے۔ معلوم نہیں وہ خواتین پر کون سی پابندیاں عائد کر دیں اور کن چیزوں کی آزادنہ اجازت دیں۔
مریم درانی کے بقول اس وقت ان کی تمام تر توجہ کلب آنے والی خواتین کو خدمات فراہم کرنے پر مرکوز ہے۔ ان میں گھریلو اور گھر سے باہر کام کرنے والی دونوں طرح کی خواتین شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ میری ایک ہی خواہش ہے کہ خواتین کو اس معاشرے میں ایک انسان کی حیثیت سے دیکھا جائے۔