پاکستانی اور بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ تاحال صوبہ سندھ سے گزرنے والےتباہ کن سیلابی ریلے سےموہنجوداڑو کے کھنڈرات کو نقصان نہیں پہنچا ہے لیکن جب تک دریا میں طغیانی باقی ہے اس تاریخی ورثے کے لیے خطرہ موجود رہے گا۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں تعلیم ،سائنس اور ثقافت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے ایک عہدیدار جواد عزیز نے بتایا ہے کہ ابھی تک چار سیلابی ریلے اس علاقے سے گزرے ہیں لیکن موہنجوداڑو کے گرد حفاظتی بندوں نے پانی کا رخ موڑ دیا جس سے یہ آثار قدیمہ ابھی تک محفوظ ہیں۔
جواد عزیز کا کہنا ہے کہ مٹی کا بنا ہواایک بند ایسا ہے جو کمزور ہے اور اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ پانی کو روکنے میں ناکام ہو سکتا ہے۔ تاہم انھوں نے بتایا کہ پاکستانی فوج اس بند کو مضبوط کرنے میں مصروف ہے تاکہ موہنجوداڑو کے ورثے کے ساتھ ساتھ اس سے آگے واقع کیڈٹ کالج اور ہوائی اڈے کو بھی سیلاب کے کسی ممکنہ نقصان سے محفوظ رکھا جا سکے۔
یونیسکو کے عہدیدار نے کہا کہ ان کا ادارہ پاکستان کے محکمہ آثار قدیمہ سے مسلسل رابطے میں ہے اور ابھی تک شدید سیلاب میں آثار قدیمہ کے حامل کسی مقام کو نقصان پہنچنے کی اطلاع نہیں ملی کیوں کہ یہ مقامات اونچائی پر واقع تھے۔
موہنجوداڑو پاکستان کے ضلع لاڑکانہ میں واقع ہے اور یہ کھنڈرات سندھ کی قدیم تہذیب کے عکاس ہیں۔
دریائے سندھ سے آدھے کلو میٹرکے فاصلے پر واقع موہنجوداڑو یونیسکو کے عالمی ورثوں میں شامل ہے اور ادارہ اس کو سیلاب سمیت دوسرے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے کئی سالوں سے متحرک بھی رہا ہے۔ اس قدیم شہر کا ڈھانچہ کچی اینٹوں سے بنا ہوا ہے اس لیے سیلابی پانی سے اسے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔