رسائی کے لنکس

گروولینڈ فور: وہ چار سیاہ فام امریکی جنہیں 70 برس بعد انصاف ملا


لیک کاؤنٹی کے شیرف ویلیس میکال (بائیں)، چارلس گرین لی، سیمیول شیفرڈ اور والٹر ارون (دائیں سے بائیں) کے ہمراہ۔ (فائل فوٹو)
لیک کاؤنٹی کے شیرف ویلیس میکال (بائیں)، چارلس گرین لی، سیمیول شیفرڈ اور والٹر ارون (دائیں سے بائیں) کے ہمراہ۔ (فائل فوٹو)

امریکی ریاست فلوریڈا میں ایک جج نے چار سیاہ فام امریکیوں کو 70 سال بعد جنسی زیادتی کے غلط الزام سے بری کر دیا ہے۔ ان افراد پر 1949 میں ایک 17 سالہ سفید فام خاتون کا ریپ کرنے کا الزام تھا۔

امریکہ میں ان سیاہ فام افراد کو 'گروولینڈ فور' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ارنیسٹ تھامس، سیمیول شیفرڈ، چارلس گرین لی اور والٹر ارون - یہ وہ چار بدقسمت ہیں جنہیں 70 برس بعد انصاف تو ملا لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی یہ دن دیکھنے کے لیے زندہ نہیں۔

پیر کو فلوریڈا کی لیک کاؤنٹی کی عدالت میں مقامی پراسیکیوٹر کی درخواست پر جج ہائیڈی ڈیوس نے ارنیسٹ تھامس اور سیمیول شیفرڈ کو الزامات سے بری کیا۔ ان دونوں افراد کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گولی مار دی تھی۔ عدالت نے دو شریک ملزمان چارلس گرین لی اور والٹر ارون کی سزاؤں کو بھی کالعدم قرار دیا۔

لیکن یہ مقدمہ تھا کیا؟ یہ جاننے کے لیے 70 سال پیچھے جانا ہوگا۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

الزام کیا تھا اور کب لگا؟

یہ واقعہ ہے 1949 کا جب امریکہ میں 'جِم کرو' کا دور تھا۔ جِم کرو اس دور کو کہا جاتا ہے جب امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں نسلی امتیاز پر مبنی قوانین لاگو تھے اور سفید اور سیاہ فام شہریوں کے درمیان تفریق ریاستی پالیسی تھی۔ مؤرخین کے مطابق جِم کرو کا یہ دور 1877 سے 1960 کی دہائی تک جاری رہا۔

ان بدقسمت سیاہ فام امریکیوں کی کہانی کا آغاز فلوریڈا کے علاقے گروولینڈ سے ہوتا ہے جہاں ان پر ایک 17 سالہ سفید فام خاتون سے اغوا کے بعد زیادتی کا الزام لگا۔ اس وقت ان چاروں افراد کی عمریں 16 سے 26 برس کے درمیان تھیں۔

ارنیسٹ تھامس کو اس الزام کے چند روز بعد ہی فرار ہونے کی کوشش پر تقریباً ایک ہزار سے زائد افراد پر مشتمل 'پوسی' نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ 'پوسی' امریکہ میں ان افراد کے گروہ کو کہا جاتا تھا جو شیرف یا قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی مدد کے لیے بناتے تھے۔ تھامس کو 400 سے زائد گولیاں ماری گئی تھیں۔

باقی تین افراد پر ریپ کے الزام میں مقدمہ چلا جس میں ان پر جرم ثابت ہو گیا تھا۔ لیکن امریکی سپریم کورٹ نے 1951 میں شیفرڈ اور ارون پر جرم ثابت ہونے کا فیصلہ شواہد پیش نہ کرنے کی بنیاد پر کالعدم قرار دے دیا تھا۔ جس کے بعد ان دونوں کا دوبارہ ٹرائل کیا گیا۔

اسی سال دوبارہ ٹرائل کے دوران شیفرڈ اور ارون کو بھی مبینہ طور پر پولیس کی حراست سے فرار ہونے کی کوشش کے دوران گولیاں مار دی گئی تھیں جس میں شیفرڈ ہلاک اور ارون زخمی ہوئے تھے۔ ان دونوں پر فائرنگ فلوریڈا کی لیک کاؤنٹی کے شیرف ویلس میکال نے کی تھی۔

میکال نے الزام لگایا تھا کہ جب وہ ملزمان کو ٹرائل کے لیے لے جا رہے تھے تو انہوں نے فرار کی کوشش کی جس پر انہوں نے اپنے بچاؤ میں فائرنگ کی۔ البتہ زخمی ہونے والے والٹر ارون نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ شیرف اور ان کے نائب نے انہیں بہیمانہ طریقے سے گولیاں ماریں۔

اس واقعے کے بعد 'گروولینڈ فور' میں سے دو افراد چارلس گرین لی اور والٹر ارون ہی زندہ بچے تھے۔ ارون پر دوسری بار مقدمہ چلایا گیا جو اس وقت کے مشہور سیاہ فام وکیل تھرگڈ مارشل سینئر نے لڑا تھا۔ تھرگڈ مارشل بعد میں امریکی سپریم کورٹ کے پہلے سیاہ فام جج بھی بنے۔

تھرگڈ مارشل سینئر نے ارون کا مقدمہ نسل پرستی کے خاتمے کے لیے قائم تنظیم 'نیشنل ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپل' کی جانب سے لڑا تھا۔ لیکن تمام سفید فام افراد پر مشتمل جیوری نے ارون کو دوبارہ مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں سزائے موت سنادی تھی۔

جون ٹینتھ: امریکہ کی تاریخ میں 19 جون کا دن اہم کیوں ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:31 0:00

لیکن ارون جیسے تیسے سزا پر عمل درآمد سے بچ نکلے اور پھر 1954 میں فلوریڈا کے گورنر لیروئے کولنز نے ان کی سزا میں نرمی کرتے ہوئے ان کی موت کی سزا کو پرول کے ساتھ عمر قید میں بدل دیا۔ ارون بعد ازاں پرول پر رہا ہوئے اور ایک سال بعد 1969 میں پراسرار طور پر انتقال کر گئے تھے۔

چوتھے ملزم کو گرین لی کو بھی مقامی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ وہ 1962 میں پرول پر رہا ہوئے اور 2012 میں ان کا بھی انتقال ہو گیا۔

سن 2017 میں فلوریڈا کی ریاستی پارلیمان نے ان چاروں افراد کے اہلِ خانہ سے باقاعدہ معافی مانگی تھی۔ 2018 میں ریاست کے اٹارنی جنرل پام بونڈی نے قانون نافذ کرنے والے ریاستی ادارے کو مقدمے پر نظرِ ثانی کی ہدایت کی تھی جس کے بعد ادارے نے رواں سال اپنی تحقیقات کی رپورٹ ریاستی اٹارنی گلیڈسن کے سپرد کی۔

ان چاروں افراد کو فلوریڈا کی ریاست کی جانب سے جنوری 2019 میں معافی بھی دی گئی تھی۔

رواں ہفتے فلوریڈا کے ریاستی اٹارنی بل گلیڈسن نے اس کیس کے فیصلے کے بعد مقدمے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ انہیں اس مقدمے سے متعلق نئے شواہد ملے تھے۔ "ہم نے شواہد کا پیچھا کیا یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ ہمیں کہاں لے جاتے ہیں اور وہ ہمیں اس لمحے تک لے آئے۔"

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان چاروں افراد کی سزا کالعدم قرار دینے کے مقدمے کی سماعت لیک کاؤنٹی کی اسی عدالت میں ہوئی جہاں 70 سال قبل ان افراد کا ٹرائل ہوا تھا۔

'جہاں انصاف کا گلا گھونٹا گیا، وہیں انصاف ملا'

امریکی مصنف گلبرٹ کنگ نے اپنی کتاب میں ان سیاہ فام افراد کی کہانی بیان کی تھی۔ انہیں اس کتاب پر 2012 میں پلٹزر پرائز بھی دیا گیا تھا۔ پیر کو مقدمے کی کارروائی میں گلبرٹ بھی موجود تھے اور ان کے ہمراہ تھرگڈ مارشل جونیئر بھی تھے جو امریکی سپریم کورٹ کے آنجہانی جج کے بیٹے ہیں۔

اس موقع پر گلبرٹ کنگ نے کہا کہ اسی عدالت میں ان سیاہ فام افراد کو انصاف ملنے کی بہت اہمیت ہے کیوں کہ اسی عمارت کی بالائی منزل پر وہ کمرۂ عدالت ہے جہاں ان کے بقول 72 برس قبل انصاف کا گلا گھونٹا گیا تھا۔

مکمل سیاہ فام آبادی والے امریکی شہروں کی کہانی
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:45 0:00

عدالت سے انصاف پانے والے افراد کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ شاید اس مقدمے سے کوئی ایسی چنگاری جلے جس سے ان دیگر سیاہ فام مردوں اورخواتین کی سزاؤں پر بھی نظرِ ثانی کی جا سکے جنہیں 'جِم کرو' کے دور میں غلط سزائیں دی گئیں۔

"ہم بہت خوش ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ ایک آغاز ہے کیوں کہ بہت سارے لوگوں کو یہ موقع نہیں ملا۔ بیشتر خاندانوں کو یہ موقع نہیں مل سکا۔ شاید اب انہیں بھی موقع مل جائے۔" یہ کہنا تھا تھامس کے بھتیجے آرون نیوسن کا جو اس فیصلے کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے زار و قطار رو رہے تھے۔

آرون نیوسن نے کہا کہ اس ملک کو قربتیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔

(اس خبر میں شامل بعض معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)

XS
SM
MD
LG