رسائی کے لنکس

شامی پناہ گزین بچوں کے لیے تعلیم 'خواب' بن کر رہ گئی


بعض ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ ترک بچوں کی طرف سے شامی پناہ گزین بچوں کو "ناروا سلوک" کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔

شام میں جاری خانہ جنگی اور بدامنی کے باعث نقل مکانی کر کے ترکی میں پناہ لینے والے لاکھوں بچوں کے لیے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا ایک خواب کی صورت اختیار کر گیا اور اکثر والدین اس سوچ کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ اس مسئلے کے پیش نظر موسم بہتر ہونے پر یورپ کا رخ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

انسانی حقوق کی موقر بین الاقوامی تنظیم "ہیومن راٹس واچ" کے اندازوں کے مطابق ترقی میں موجود سات لاکھ شامی پناہ گزین بچوں کی تعداد کے تیسرے حصے سے بھی کم بچے اسکول جا پا رہے ہیں۔

تنظیم نے متنبہ کیا ہے کہ ترک حکومت کی طرف سے پناہ گزین بچوں کی تعلیم کے لیے امداد دینے کے وعدوں کے باوجود چار لاکھ سے زائد بچے کسی بھی طرح کی تعلیمی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔

شام کے علاقے کوبانی سے تعلق رکھنے والی برکا اپنا گھر تباہ ہونے کے بعد نقل مکانی کر کے ترکی کے شہر اورفہ میں آن بسی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے بچوں کو ترک اسکول میں داخل کروانے کی کوشش کی لیکن بعض پرائیوٹ اسکولوں میں پہلے سے شامی بچوں کی تعداد اتنی تھی کہ انھیں داخلے کے بغیر ہی لوٹنا پڑا۔

وہ کہتی ہیں کہ موسم کی صورتحال بہتر ہونے پر وہ اپنے خاندان کے ہمراہ یورپ جانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

حالیہ مہینوں میں ہزاروں کی تعداد میں شامی باشندوں نے پناہ کے لیے یورپ کا رخ کیا ہے۔

برکا کے بچے اب ترک زبان سیکھ رہے ہیں تاکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی دیگر مشکلات کو کم کرنے میں مدد مل سکے۔

ترکی کے سرکاری اسکولوں میں عربی بولنے والے شامی بچوں کو مقامی زبان سمجھنے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے اور یہ بھی ان کی تعلیمی سرگرمی کو جاری رکھنے میں ایک رکاوٹ ہے۔

بہت سے پناہ گزینوں کے لیے اسکولوں تک رسائی اس بنا پر مشکل ہے کہ وہ محدود وسائل ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کی سہولت سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ بعض ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ ترک بچوں کی طرف سے شامی پناہ گزین بچوں کو "ناروا سلوک" کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔

گزشتہ ماہ ترکی کی وزارت تعلیم نے اعلان کیا تھا کہ 270 عارضی تعلیمی مراکز میں تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار پناہ گزین بچے ترمیم شدہ نصاب پڑھ رہے ہیں۔ ایک اور عہدیدار نے بتایا تھا کہ لگ بھگ 50 ہزار شامی بچے بنیادی یا ہائی اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

ترک حکام موجود صورتحال کو خاصا حوصلہ افزا قرار دینے پر مُصر ہیں کیونکہ ان کے بقول 2014ء میں صرف چھ ہزار بچے ہی عارضی تعلیمی مراکز میں تعلیم حاصل کر پا رہے تھے۔

XS
SM
MD
LG