اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین "یو این ایچ سی آر" نے کہا ہے کہ شام میں جاری تنازع کے باعث نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 40 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جو کہ دنیا میں کسی ایک ہی نسل کے دوران پناہ گزین ہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
تنازع کے کسی حل کی صورت نظر نہ آنے کو مد نظر رکھتے ہوئے یو این ایچ سی آر نے متوقع طور پر شامی پناہ گزینوں کی تعداد رواں سال کے اواخر تک 42 لاکھ 50 ہزار تک پہنچنے کا بتایا ہے۔
ادارے کے مطابق دس ماہ قبل ہی یہ تعداد 30 لاکھ کے ہندسے تک پہنچی تھی۔
جون میں 24 ہزار سے زائد شامی باشندے ترکی کی طرف منتقل ہوئے جو پہلے ہی دنیا میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی آبادی کی میزبانی کر رہا ہے۔ 40 لاکھ شامیوں میں سے 45 فیصد نے ترکی میں پناہ لے رکھی ہے جب کہ دیگر اردن، لبنان، عراق اور مصر میں قیام پذیر ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے ترجمان اڈریان ایڈورڈس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ میزبان ملکوں میں پناہ گزینوں کے لیے حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں اور ان میں اکثریت غربت اور کساد بازاری میں ڈوبتی جا رہی ہے۔
"اگر آپ ان ملکوں کا جہاں یہ پناہ گزین مقیم ہیں، جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ اردن میں 86 فیصد پناہ گزین کیمپوں کے باہر خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، لبنان میں 55 فیصد غیر معیاری پناہ گاہوں میں ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ یو این ایچ سی آر کو اس ضمن میں مالی مشکلات کا سامنا ہے اور ان کے بقول رواں برس درکار ساڑھے پانچ ارب ڈالر کا صرف ایک چوتھائی ہی مل سکا ہے اور فنڈز کی کمیابی کی وجہ سے پناہ گزینوں اور ان کے میزبانوں پر شدید دباؤ آگیا ہے۔
ایڈورڈ کہتے ہیں کہ ان کا ادارہ پناہ گزینوں سے متعلق پروگراموں میں نئی سخت کٹوتیاں کرنے پر مجبور ہوگا کیونکہ ان کی مدد کے لیے درکار رقم دستیاب نہیں۔
"ایسے پروگرام جو کہ مستقبل کے لیے بہت اہم ہیں جیسے کہ بچوں کی تعلیم، جیسے کہ صحت اور دیگر چیزوں کے بارے میں پروگرام تو (فنڈز کی کمیابی سے) ان پر دو رس اثرات مرتب ہوں گے۔ جب لاکھوں ایسے بچے ہوں جو اسکول جانے کے قابل نہیں اور درکار امداد حاصل نہ سکیں تو خطرہ یہ ہے کہ آپ کو ایک گم گشتہ نسل کا سامنا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ بہت سے پناہ گزین مستقبل قریب میں خود کو اپنے گھروں کو واپس جاتا نہیں دیکھتے اور ان کی ایک بڑی تعداد اب یورپ کی طرف منتقل ہورہی ہے۔