رسائی کے لنکس

سلیکون ویلی میں بڑے فراڈ کا فیصلہ : رمیش بلوانی کو قصوروار قرار دے دیا گیا


تھیرانوس کے سابق ایگزیگٹو رامیش سنی بلوانی (دائیں) سین ہوزے، کیلی فورنیا میں اپنے وکیل کے ساتھ ایک عدالت سے باہر آ رہے ہیں (7 جولائی 2022۔اے پی)
تھیرانوس کے سابق ایگزیگٹو رامیش سنی بلوانی (دائیں) سین ہوزے، کیلی فورنیا میں اپنے وکیل کے ساتھ ایک عدالت سے باہر آ رہے ہیں (7 جولائی 2022۔اے پی)

امریکہ میں ایک جیوری نے ’ تھیرانوس‘ کے ایگزیکٹو رامیش ’سنی‘ بلوانی کو کمپنی کے چیف ایگزیکٹو الزبتھ ہومز کے ساتھ مل کر ایک بڑے پیمانے پر فراڈ کا مرتکب قرار دیا ہے۔ خون کے نمونوں کا تجزیہ کرنے والی یہ کمپنی سلیکون ویلی میں کبھی ایک متاثر کن کمپنی ہوا کرتی تھی۔

جیوری میں شامل افراد نے بلوانی کو تھیرانوس میں سرمایہ لگانے والوں اور ان مریضوں کے ساتھ دھوکہ کرنے کے 12 الزامات میں قصوروار پایا جنہوں نے زیادہ تر ناقابل بھروسہ بلڈ ٹیسٹوں پر بھروسہ کیا جس سے ان کی صحت کو خطرات لاحق ہو سکتے تھے۔

جب یہ فیصلہ سنایا جا رہا تھا، بلوانی خاموشی سے بیٹھے آنکھیں جھپکتے رہے۔

جیوری کے فیصلے کے بعد بلوانی اور الزبتھ ہومز ایک ہی طرح کے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہومز کو اس سال کے شروع میں سرمایہ کاروں کے ساتھ فراڈ اور سازش کے چار الزامات میں قصور وار پایا گیا تھا۔

ٹرائل کے دوران ہومز نے روتے ہوئے، بلوانی پر جنسی اور جذباتی طور پر فائدہ اٹھانے کا الزام عائد کیا تھا جب دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ بلوانی کے وکیل نے سختی سے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

38 سالہ ہومز اور 57 سالہ بلوانی کو 20 سال قید کی سزا کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ہومز کو اس سال ستمبر کے آخر میں سزا سنائی جائے گی جبکہ بلوانی کو متوقع طور پر آئندہ دنوں میں سزا ، سنائی جا سکتی ہے۔

کچھ تفصیل تھیرانوس، رمیش اور ہومز کے بارے میں

وائس آف امریکہ کے لیے ندا سمیر فاطمہ نے کچھ ماہ قبل، جب جیوری نے فیصلہ نہیں دیا تھا، اس اسکینڈل کے بارے میں تفصیلات جمع کی تھیں جو کمپنی اور کمپنی کے دو بڑے کرداروں پر روشنی ڈالتی ہیں۔

تھیرانوس کیا ہے؟

تھیرانوس کیا ہے کے بجائے کیا تھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیوں کہ ستمبر 2018 میں یہ کمپنی ہمیشہ کے لیے بند کر دی گئی تھی۔

تھیرانوس ایک ایسا اسٹارٹ اپ تھا جس کی آمد نے ہیلتھ سائنسز کی دنیا میں ہلچل مچا دی تھی۔

اس کمپنی نے ایڈیسن نام کی ایک چھوٹی سی مشین تیار کی جو ہیلتھ کیئر کی دنیا میں مختلف بیماریوں کی تشخیص کے لیے خون کے نمونے حاصل کرنے کے طریقے کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کرنے والی تھی۔

کمپنی کا دعویٰٰ تھا کہ کہ ایڈیسن نام کی یہ مشین محض چند قطرے خون سے 200 سے زائد مختلف اقسام کے ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان میں کئی ایسے ٹیسٹس بھی شامل تھے جو بیماریوں کے لاحق ہونے سے قبل ہی ان کی تشخیص میں مدد دیتے۔

یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک انقلابی تبدیلی کی پیش گوئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا تھیرانوس کی آمد سے امریکہ میں 60 ارب ڈالرز کی روایتی لیب ٹیسٹنگ صنعت کا خاتمہ ہو جائے گا۔

الزبتھ ہومز (اے پی فائل)
الزبتھ ہومز (اے پی فائل)

مگر حقیقت میں ایڈیسن نامی مشین چند ہی ٹیسٹس کرنے کے قابل تھی اور ان ٹیسٹس کے نتائج بھی حتمی نہیں کہے جا سکتے تھے۔

وفاقی تحقیقات کے دوران کمپنی کے سابقہ ملازمین کا کہنا تھا کہ الزبتھ اور رمیش عرف سنی دونوں جانتے تھے کہ کمپنی کے پاس وہ صلاحیتیں اور ٹیکنالوجی نہیں جس کا وہ دعویٰٰ کر رہے تھے۔ ملازمین کے مطابق سرمایہ کاروں اور’ وال گرینز‘ فارمیسی جیسے قد آور کلائنٹس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بہت سے ٹیسٹس دیگر کمپنیوں کی مشینز پر کیے جاتے تھے اور ان کے نتائج کو ایڈیسن سے حاصل کیے گیے نتائج کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔

اکتوبر 2015 میں 'وال اسٹریٹ جرنل' میں چھپنے والی تحقیقاتی رپورٹس میں کمپنی کی ان بے ضابطگیوں اور غلط بیانیوں پر سوال اٹھائے گئے جسے الزبتھ ہومز نے بڑے اعتماد کے ساتھ میڈیا پر یکسر مسترد کر دیا تھا۔

یاد رہے 'وال اسٹریٹ جرنل' کے مالک میڈیا ٹائیکون روپرٹ مرڈوخ ہیں جو الزبتھ ہومز کی تھیرانوس میں بذات خود ساڑھے 12 کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کر چکے تھے۔

اپنے زوال سے پہلے تھیرانوس کمپنی کی مالیت کا تخمینہ نو ارب ڈالرز لگایا گیا تھا۔

سال 2014 میں ’فوربز میگزین‘ نے الزبتھ ہومز کی نیٹ ورتھ یا اثاثوں کی کل مالیت ساڑھے چار ارب ڈالرز بتائی اور 30 سالہ الزبتھ ہومز کو ’اپنے بل بوتے پر ارب پتی بننے والی سب سے کم عمر خاتون‘ قرار دیا۔

الزبتھ ہومز: تھیرانوس کا مرکزی کردار

سلیکون ویلی میں بڑی تعداد میں نوجوان اپنے اسٹارٹ اپس کے لیے سرمایہ کار تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کو مہینوں اور سالوں کی کوشش کے بعد بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔

ایسے میں الزبتھ ہومز میں ایسا کیا تھا جس سے بڑے سرمایہ کار ہوں، ملک کے صدر ہوں یا پھر نائب صدر سب ہی مرعوب ہو جاتے تھے؟

اس کے لیے الزبتھ ہومز کی شخصیت جاننا ضروری ہے۔

تھیرانوس: بائیوٹیک انڈسٹری کا چونکا دینے والا فراڈ کیس
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:31 0:00

الزبتھ ہومز 1984 میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں پیدا ہوئیں جہاں ان کے والدین سرکاری عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں۔ ان کے ایک پڑوسی نے نیوز چینل 'اے بی سی' کی ایک پوڈ کاسٹ میں بتایا کہ الزبتھ کے والد کرسچیئن ہومز اور والدہ نوئل ہومز دونوں کو اپنے مضبوط خاندانی پس منظر پر بڑا فخر تھا اور وہ اکثر اپنے آباؤ اجداد کی کامیابیوں کا ذکر کرتے تھے۔

کوئی بعید نہیں کہ ایسے ماحول میں پلنے والا بچہ جہاں شخصیتی کامیابی کو فخر و ناز کا باعث سمجھا جاتا ہو اور اس کے قصے دوسروں کو مثال کے طور پر سنائے جاتے ہوں، ایسے ہی خواب آنکھوں میں لے کر پروان چڑھے۔

جریدے ’دا نیویارکر‘ کو دیے گیے ایک انٹرویو میں خود الزبتھ ہومز کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایسے گھر میں پلی بڑھیں جہاں کچھ بڑا کرنے پر زور دیا جاتا تھا، جہاں یہ بتایا جاتا تھا کہ زندگی کو بے مقصد طور پر گزارنے کا فیصلہ کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور وہ مستقبل میں کیسی زندگی بسر کرتے ہیں۔

الزبتھ ہومز یقیناً اچھی طالبِ علم رہی ہوں گی تب ہی امریکہ کی معتبر ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک اسٹینفورڈ میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔

امریکی نیوز ادارے ’انسائیڈر‘ نے ہومز کے رشتہ داروں کے حوالے سے تحریر کیا کہ نو سال کی عمر میں جب الزبتھ سے پوچھا گیا کہ وہ کیا بننا چاہتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ ارب پتی بننا چاہتی ہیں۔

تھیرانوس کی بانی الزبتھ ہومز عدالت کے کلرک کو ان کے خلاف مقدمے کا فیصلے پڑھتے ہوئے دیکھ رہی ہیں۔ ہومز کو جج ایڈورڈ ڈیویلا نے انہیں جنوری میں گیارہ میں سے چار الزامات میں قصوروار قرار دیا تھا۔ (خاکہ: رائٹرز)
تھیرانوس کی بانی الزبتھ ہومز عدالت کے کلرک کو ان کے خلاف مقدمے کا فیصلے پڑھتے ہوئے دیکھ رہی ہیں۔ ہومز کو جج ایڈورڈ ڈیویلا نے انہیں جنوری میں گیارہ میں سے چار الزامات میں قصوروار قرار دیا تھا۔ (خاکہ: رائٹرز)

انہی رشتہ داروں کے حوالے سے مزید بتایا گیا کہ وہ بچپن میں اپنے خاندان کے بچوں کے ساتھ بورڈ گیم منوپلی اس وقت تک کھیلتی رہتی تھیں جب تک وہ گیم کی ساری جائیدادیں حاصل نہ کر لیتیں۔ جب انہیں لگتا آج قسمت ساتھ نہیں دے رہی تو وہ گیم چھوڑ کر چلی جاتی تھیں۔

سن 2015 میں کی گئی ایک ٹوئٹ میں الزبتھ نے خود لکھا کہ کوئی ایسا خواب نہیں جو آپ نہ پا سکیں، کسی کو اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کو کہہ سکے کہ آپ ایسا نہیں کر پائیں گے۔

اکتوبر 2015 میں 'وال اسٹریٹ جرنل' میں چھپنے والی تحقیقاتی رپورٹس میں کمپنی کی ان بے ضابطگیوں اور غلط بیانیوں پر سوال اٹھائے گئے جسے الزبتھ ہومز نے بڑے اعتماد کے ساتھ میڈیا پر یکسر مسترد کر دیا تھا۔

یاد رہے 'وال اسٹریٹ جرنل' کے مالک میڈیا ٹائیکون روپرٹ مرڈوخ ہیں جو الزبتھ ہومز کی تھیرانوس میں بذات خود ساڑھے 12 کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کر چکے تھے۔

اپنے زوال سے پہلے تھیرانوس کمپنی کی مالیت کا تخمینہ نو ارب ڈالرز لگایا گیا تھا۔

سال 2014 میں ’فوربز میگزین‘ نے الزبتھ ہومز کی نیٹ ورتھ یا اثاثوں کی کل مالیت ساڑھے چار ارب ڈالرز بتائی اور 30 سالہ الزبتھ ہومز کو ’اپنے بل بوتے پر ارب پتی بننے والی سب سے کم عمر خاتون‘ قرار دیا۔

رمیش بلوانی، تھیرانوس کا دوسرا اہم کردار

الزبتھ ہومز کے نمبر دو کہلانے والے رمیش بلوانی، جنہیں سنی کے نام سے پکارا جاتا ہے، برطانوی اخبار ’گارڈیئن‘ کے مطابق پاکستان کے صوبے سندھ میں ایک ہندو خاندان میں پیدا ہوئے۔

رمیش بلوانی 1986 میں امریکہ چلے گئے تھے جہاں انہوں نے یونیورسٹی آف ٹیکساس ایٹ آسٹن سے انفارمیشن سسٹمز میں کالج ڈگری حاصل کی۔ ’گارڈیئن‘ اخبار کے مطابق ان کا خاندان بعد میں پاکستان سے بھارت ہجرت کر گیا تھا جس کے بعد وہ بھی امریکہ منتقل ہو گئے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سن 2002 میں چین میں ملاقات کے بعد 18 سالہ الزبتھ ہومز اور 37 سالہ رمیش بلوانی میں مبینہ طور پر محبت کا رشتہ قائم ہوا۔

’وال اسٹریٹ جرنل‘ میں بے نقاب ہوئی تھیرانوس کی کہانی میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہومز اور بلوانی دونوں نہ صرف ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے بلکہ رہتے بھی ساتھ ہی تھے۔ دونوں نے خود عدالت میں اس رشتے کا اعتراف کیا اور اس کا بھی کہ یہ بات انہوں نے سرمایہ کاروں سے خفیہ رکھی۔

پاس کیز؛ اب پاسورڈز کی چھٹی
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:11 0:00

نشریاتی ادارے ’اے بی سی نیوز‘ کے پوڈکاسٹ The Dropouts کی جانب سے عدالت سے حاصل کیے گئے رمیش بلوانی کے بیان کے مطابق بلوانی نے عدالت کو بتایا کہ جب تھیرانوس کو پیسوں کی کمی کا سامنا تھا اور چوں کہ وہ کمپنی کی صلاحیتوں پر یقین رکھتے تھے اس لیے انہوں نے کمپنی کو ایک کروڑ تیس لاکھ ڈالرز دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا یہ قدم خلوص اور نیک نیتی پر مبنی تھا۔

رمیش انٹرنیٹ اور ڈاٹ کام کے عروج کے زمانے میں اپنے کمپنی حصص فروخت کرکے چار کروڑ ڈالرز کما چکے تھے اور جس وقت ان کے اور الزبتھ ہومز کے درمیان محبت کا رشتہ قائم ہوا وہ مضبوط مالی حیثیت کے مالک تھے۔

آگے جا کر یہی رمیش بلوانی 2009 میں تھیرانوس کے چیف آپریٹنگ آفیسر کا عہدہ سنبھالتے ہیں۔

رمیش بلوانی یا سنی بلوانی کے نام کو اگر آپ انٹرنیٹ پر تلاش کریں تو تھیرانوس کے عروج و زوال کی کہانی، فراڈ اور عدالتی کیس کے علاوہ ان کی کوئی معلومات نہیں ملیں گی۔

’وال اسٹریٹ جرنل‘ کے صحافی جان کیریرو جنہوں نے تھیرانوس کے جھوٹ کو بے نقاب کیا تھا، کا کہنا ہے کہ سنی بلوانی نے ممکنہ طور پر اپنا تمام ڈیجیٹل ریکارڈ تلف کرا دیا تھا کیوں کہ جو شخص خود سافٹ ویئر اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی دنیا میں نام اور پیسہ دونوں بنا چکا ہو، ممکن نہیں کہ اس کے بارے میں انٹرنیٹ پر کچھ بھی نہ ملے۔

جان کیریرو کے مطابق کمپنی میں کام کرنے والے ملازمین نے انہیں بتایا کہ الزبتھ اگر کمپنی کی بانی تھیں تو ان کے طریقۂ کار کو لاگو کرنے والی شخصیت رمیش بلوانی کی ہی تھی۔ ملازمین کے مطابق بلوانی نے کمپنی میں خوف کی ایک فضا قائم کی ہوئی تھی۔ وہ ملازمین کے کام کے اوقاتِ کار نوٹ کرتے اور وڈیو کیمروں سے ان پر نظر رکھتے۔

ایک بار وہ ایک ملازم کی یہ سرزنش کرتے ہوئے پائے گئے کہ اس نے محض آٹھ گھنٹے کیوں کام کیا اور یہ کہ وہ انہیں "ٹھیک" کر دیں گے۔ ملازم نوکری چھوڑ کر دروازے کی طرف بڑھا تو رمیش نے اس پر پولیس بلوا لی۔

ملازمین کے مطابق رمیش بلوانی بد زبان اور گرم مزاج شخصیت کے مالک تھے۔

تھیرانوس کیسے سرمایہ کاروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوئی؟

سلیکون ویلی میں Creative Chaos اسٹارٹ اپس اور فورچون 500 کمپنیوں کو کاروباری حکمت عملی اور پراڈکٹ ڈویلپمنٹ میں مدد فراہم کرتی ہے۔ اس کے بانی شاکر حسین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے دو اہم وجوہات بتائی ہیں جن کی بنا پر تھیرانوس تیزی سے اپنی جگہ بنا پائی۔

شاکر حسین کہتے ہیں کہ امریکہ میں سرمایہ کار کم شرح منافع کی وجہ سے بینکوں کو ترجیح نہیں دیتے۔ ان کے لیے کاروباری ریس کے ایک ایسے گھوڑے پر رقم لگانا زیادہ فائدہ مند ہے جو چند برس بعد ان کی رقم کو کئی گنا کردے۔ اس لیے یہاں سرمایہ کار اسٹارٹ اپس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG