پیر کے روز امریکی محکمہ خارجہ کےایک عہدے دار نے بتایا کہ مزید چار امریکی شہری زمینی راستے کے ذریعے اس کے باوجود افغانستان سے بحفاظت نکل گئے ہیں کہ طالبان نے، جن کا اس وقت افغانستان پر کنٹرول ہے، مزید امریکیوں اور امریکی فورسز کے لیے کام کرنے والے افغان شہریوں کو ملک سے باہر لے جانے کی پروازیں روک دی ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ طالبان نے ان چار امریکیوں کا راستہ نہیں روکا اور وہ ان کی روانگی سے بھی آگاہ تھے۔
عہدے دار نے اس بارے میں اعلان امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کے قطر کے صدر مقام دوحہ پہنچنے سے تھوڑی دیر پہلے کیا۔
بلنکن قطر کے عہدے داروں کا شکریہ ادا کرنے وہاں گئے ہیں، اس خلیجی ملک نے اگست کے آخر میں کابل سے بحفاظت طیاروں کے ذریعے سے انخلا کرنے والے ہزاروں امریکیوں اور افغان شہریوں کے لئے پہلے اسٹاپ کے طور پر کام کرنے میں بھرپور معاونت کی ہے۔
عہدےدار نے کہا کہ ہم نے چار امریکیوں کی زمینی راستے سے بحفاظت روانگی میں سہولت پیدا کی اور افغان سرحد عبور کرنے کے بعد سفارتی عملے نے ان چاروں کا خیر مقدم کیا۔
لیکن عہدے دار نے یہ نہیں بتایا کہ امریکی محکمہ خارجہ نے خشکی کے راستے اس پہلے انخلا میں ان امریکیوں کو کس ملک میں منتقل کیا تھا، کیونکہ افغانستان کی سرحدیں ایران، ترکمانستان، از بکستان، تاجکستان اور پاکستان سے ملتی ہیں۔
قطر میں قیام کے بعد بلنکن گزشتہ ہفتے افغانستان میں لگ بھگ دو عشروں پر محیط جنگ کے خاتمے کے بعد اپنے ایک اہم اتحادی جرمنی کا دورہ کریں گے۔
اتوار کی رات بلنکن نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ دوحہ، قطر اور رامینسٹائن، جرمنی جاتے ہوئے مجھے قطر اور جرمنی کے دوستوں کی اس بھرپور مدد کا ذاتی طور پر شکریہ ادا کرنے کا موقع ملے گا جو انہوں نے امریکی شہریوں، افغان شہریوں اور افغانستان سےانخلا کرنے والے دوسرے لوگوں کی بحفاظت منتقلی میں فراہم کی۔
بلنکن نے کہا کہ امریکہ افغانستان سے نکلنے کے ہر خواہش مند امریکی، اور خصوصی امیگرنٹ ویزے کےامیدواروں اور ان افغان باشندوں کی مدد کے لیے پرعزم ہے جنہوں نے امریکہ کی افغانستان میں 20 سال کی جنگ کے دوران مدد کی۔
بائیڈن انتظامیہ کو 15 اگست کو کابل پر طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد افغانستان سے انخلا سے نمٹنے کے انداز پر ری پبلکن قانون سازوں، انسانی حقوق کے گروپس اور دوسروں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔
بلنکن نے یہ بھِی کہا کہ وہ بدھ کے روز جرمن وزیر خارجہ ہیکو ماس کے ہمراہ افغانستان پر 20 ملکوں کے وزرا کے ایک ورچوئل اجلاس کی سربراہی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان 20 ملکوں نے افغان شہریوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے، ان کی دوبارہ آبادکاری اور طالبان کو اپنے وعدوں کی پاسداری پر پابند کرنے میں مدد کی ہے۔
طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان افغان باشندوں اور دوسروں کو ملک سے باہر جانے کا محفوظ راستہ فراہم کریں گے جو افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن بہت سے افغان شہریوں کو ان کے وعدوں کے مستند ہونے پر شکوک و شبہات ہیں۔
افغانستان میں عہدے داروں نے کہا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کی امکانی طور پر چار پروازوں کو شمالی شہر مزار شریف کے ہوائی اڈے سے روانگی کو روک دیا گیا ہے، جب کہ امریکی کانگریس مین مائیکل میک کول نے فاکس نیوز سنڈے شو میں کہا کہ چھ طیاروں کو روکا گیا ہے جن کے ذریعے پرواز کرنے والوں میں کچھ امریکی شہری بھی شامل تھے۔
جمعے کے روز بلنکن نے افغانستان سے امریکی انخلا کا ایک بار پھر یہ کہتے ہوئے دفاع کیا کہ اب وہاں امریکیوں کی نسبتاً ایک تھوڑی سی تعداد باقی رہ گئی ہے اور امریکی محکمہ خارجہ ان سب کے ساتھ فعال رابطے میں ہے۔
وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف ران کلین نے اتوار کر سی این این کو بتایا کہ لگ بھگ ایک سو امریکی افغانستان میں باقی رہ گئے ہیں لیکن میک کول نے کہا کہ سینکڑوں امریکی ابھی تک وہاں موجود ہیں۔