گزشتہ کئی عشروں سے افغانستان جنگ و جدال کا شکار ہے۔ پہلے 1979 میں اسوقت کی ایک سپر پاور سابقہ سوویت یونین نے بہ زور طاقت افغانستان کو زیرکرنا چاہا۔ لیکن ناکام ہوا اور خود سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ جس کے بعد مختلف افغان دھڑے آپس میں برسر پیکار رہے۔
امریکہ پر 9/11 کے دہشت گرد حملوں کے بعد افغانستان سے پنپنے والی دہشت گردی کو روکنے اور القاعدہ کو جو 9/11 حملوں کی ذمہ دار تھی سزا دینے کے لئے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے لشکر کشی کی جس کا سلسلہ تقریباً20 سال جاری رہا۔
اس دوران افغانستان میں مختلف منتخب حکومتیں نظام مملکت چلاتی رہیں لیکن ایک جانب افغان طالبان سرگرم عمل رہے اور دوسری جانب دوسرے دہشت گرد گروپ بھی وہاں فعال رہے۔ اس سارے عرصے میں خونریزی کا سلسلہ کبھی نہیں رکا۔ پچھلے سال امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ ہوا۔ لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ اور امریکہ اور اسکے مغربی اتحادیوں نے افغانستان سے نکلنے کا اعلان کردیا۔
انکا موقف تھا کہ ان 20 برسوں کی کارروائیوں کا مقصد یہ تھا کہ القاعدہ کو اس قابل نہ رہنے دیا جائے کہ وہ آئندہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں پر دہشت گرد حملے کر سکے اور وہ مقصد حاصل کرلیا گیا ہے۔
افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت جس کے پاس کوئی تین لاکھ ایسی فوج تھی جس کی بقول ان کے بہترین تربیت کی گئی تھی اور جس کے پاس جدید ترین ہتھیار تھے، ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہو گئے۔ مغربی ممالک کی فوجیں اپنے نئے نظام الاوقات کے مطابق افغانستان سے نکل گئیں اور کوئی دو عشروں کے بعد طالبان ایک بار پھر افغانستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ جنکا دعوی ہے کہ اب وہ پہلے والے طالبان نہیں ہیں اور انکی سوچ بدل گئی ہے۔
طالبان نے جمہوریت،خواتین کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق اور حقوق انسانی کی پاسداری کے حوالے سے بہت سے وعدے کئے ہیں لیکن آنے والا وقت بتائے گا کہ یہ وعدے کس حد تک پورے ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے۔
عالمی امور کے ماہرین کے درمیان یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ آیا ان کے وعدوں پر اعتبار کرکے انہیں 'انگیج 'کیا جائے اور عالمی برادری کے ملکوں میں انہیں شامل ہونے کا موقع دیا جائے یا انہیں الگ تھلگ کرکے ان پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اپنے وعدے پورے کریں۔
پروفیسر حسن عسکری پاکستان کے ممتاز تجزیہ کار اور عالمی امور کے ماہر ہیں۔ اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جن ملکوں کو نقصان ہوا ہے اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے انہیں تو یقیناً طالبان کو فوری طور پرانگیج کرنے میں تامل ہو گا۔ انکا کہنا تھا کہ دنیا کو یہ دیکھنا پڑے گا کہ اگر افغانستان میں امن اور سکون نہیں ہو گا، خلفشار ہو گا تو وہ سرزمین ایک بار پھر دہشت گردوں کی آماجگاہ بن سکتی ہے، جو کہ پڑوسی ملکوں کے لئے بھی خطرناک صورت حال ہو گی اور بقیہ دنیا کے لئے بھی۔
انہوں کہا کہ طالبان اب یہ اشارے دے رہے ہیں کہ وہ پہلے سے مختلف ہیں۔ وہ بھی دنیا کو انگیج کرنا چاہتے ہیں۔
پروفیسر حسن عسکری نےکہا کہ انکے خیال میں انہیں یہ موقع دیا جاسکتا ہے کہ آیا وہ اپنے وعدوں پر پورے اترتے ہیں اور کیا وہ اسی طرح دنیا کو انگیج کرتے ہیں جس طرح ایک ذمہ دار ریاست کو کرنا چاہئیے۔ اور اس نقطہ نظر سے انہیں انگیج کرنا مناسب رہے گا۔
انھوں نے کہا کہ ایک آدھ کے علاوہ زیادہ تر پڑوسی ممالک سے تو یہ اشارے مل رہے ہیں کہ وہ طالبان کو انگیج کرنے کی پالیسی پر عمل کریں گے۔ اور اس سے مراد یہ ہے کہ طالبان کو جو فوری مالی اور سفارتی مدد درکار ہے وہ فراہم کریں گے، کیونکہ اگر افغانستان میں حالات بگڑتے ہیں تو یہی ملک سب سے زیادہ متاثر ہونگے۔ تاہم، انکا کہنا تھا کہ مغربی ملکوں میں اس بارے میں اسوقت ہچکچاہٹ پائی جائے گی اور تنقید بھی کی جائے گی کیونکہ جو بھی حکومت افغانستان میں بنے گی اس میں ہر چند کہ دوسرے لوگ بھی شامل ہونگے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ وہ تقاضے حکومت پورے نہیں کر سکے گی جو مغرب کی نظر میں جمہوریت کے تقاضے ہیں۔ اور مغرب کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ افغانستان میں عدم استحکام سےکیا مغرب کو فائدہ پہنچے گا یا وہاں کا استحکام بہتر ہو گا۔
ڈاکٹر راونی ٹھاکر ممتاز بھارتی تجزیہ کار ہیں اور دہلی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر طالبان یہ ثابت نہ کرسکے کہ وہ تبدیل ہو گئے ہیں تو مغربی ملکوں کے لئے انہیں انگیج کرنا مشکل ہو گا۔ لیکن بعض ممالک دو طرفہ تعلقات کی بنیادوں پر انہیں انگیج کریں گے، جیسے، بقول ان کے، اسوقت چین کر رہا ہے، اس کے لیڈروں کے ساتھ انکی ملاقاتیں بھی ہوئیں ہیں۔ اور یہ ہی صورت حال پاکستان کے ساتھ بھی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ بھارت کو بھی اس حوالے سے اب اپنی پالیسیوں پر نئے سرے سے غور کرنا ہوگا جس میں اس بات کو مد نظر رکھنا ہو گا کہ کیا اب بھی افغانستان کی سرزمین سے اسکے خلاف دہشت گردی ہو سکتی ہے یا طالبان اسکی اجازت نہیں دیں گے۔ بلکہ انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ بھارت کو اب ریجنل سیکیورٹی وغیرہ پر زیادہ توجہ دینی چاہئیے اور انتظار کرنا اور دیکھنا چاہئیے کہ چین افغانستان میں ایسا کونسا کام کرسکتا ہے جو امریکہ اور سابق سوویت یونین نہ کر سکے۔
ڈاکٹر حیدر مہدی شارجہ کی امریکی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ دنیا کو اسوقت طالبان کو انگیج کرنے کی پالیسی اپنانی چاہئیے اور انکے جو اثاثے منجمد کئے گئے ہیں انہیں ریلیز کر دینا چاہئیے۔تاکہ وہ آپنا کام چلا سکیں۔
ڈاکٹر حیدر مہدی کا کہنا تھا کہ اگر طالبان کو زیادہ دبانے کی کوشش کی گئی تو پھر ان کے بارے میں کوئی ضمانت دینا مشکل ہوگی کہ وہ کیا کر گزریں گے۔