بھارت میں منگل اور بدھ کو چار اہم مسلمان سیاسی اور مذہبی رہنما انتقال کر گئے ہیں جن میں سے بعض بھارت کی سیاست اور اہم حکومتی عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔
جن اہم مسلمان شخصیات کا انتقال ہوا، ان میں ممتاز شیعہ عالمِ دین اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر مولانا سید کلبِ صادق، کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی کے مشیر اور رُکن پارلیمنٹ احمد پٹیل، ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر اے آر مومن اور سپریم کورٹ کے نامور وکیل شکیل سید شامل ہیں۔
مولانا کلبِ صادق منگل کو لکھنؤ، شکیل سید کا میدانتا اسپتال گڑگاؤں ہریانہ، پروفیسر عبد الرحمٰن مومن کا منگل کی شب بنگلور اور احمد پٹیل بدھ کی صبح گڑگاؤں میں انتقال کر گئے۔
مولانا کلبِ صادق کی عمر 83 سال، احمد پٹیل کی 71 سال، شکیل سید کی 68 سال اور پروفیسر مومن کی 80 سال تھی۔
مولانا کلبِ صادق کا نمونیہ، جب کہ احمد پٹیل اور شکیل سید کا انتقال کرونا وائرس کی وجہ سے ہوا۔
مولانا کلبِ صادق کی تدفین بدھ کو لکھنؤ میں، شکیل سید کی دہلی میں اور پروفیسر مومن کی بھیونڈی، مہاراشٹرا میں کی گئی جب کہ احمد پٹیل کو ان کے آبائی علاقے بھروچ گجرات میں سپردِ خاک کیا گیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی، کانگریس صدر سونیا گاندھی، سینئر کانگریس رہنما راہول گاندھی اور دیگر سیاست دانوں نے مولانا کلبِ صادق اور احمد پٹیل کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
مولانا ڈاکٹر کلبِ صادق شیعہ، سنی اتحاد اور مسلکی اختلافات کے خاتمے اور یکجہتی کے لیے کوشاں رہتے تھے۔
اُنہوں نے قانون، میڈیکل اور دوسرے جدید علوم میں مسلمانوں کو آگے آنے کی ترغیب بھی دی۔
وزیر اعظم کے علاوہ صدر رام ناتھ کووند، اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، گورنر آنندی بین پٹیل، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا سید رابع حسنی ندوی سمیت دیگر مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے ان کے انتقال پر رنج و غم کا اظہار کیا۔
رکن پارلیمان احمد پٹیل کانگریس صدر سونیا گاندھی کے کئی عشروں سے مشیر رہے ہیں اور انہیں پارٹی میں "مشکل کشا" کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ جب بھی پارٹی میں کوئی مشکل آتی تو احمد پٹیل ہی اس کو دور کرتے۔
سونیا گاندھی نے انتہائی رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کے انتقال کو ذاتی خسارہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں انہیں اپنا وفادار اور مخلص ساتھی قرار دیا۔
راہول گاندھی نے کہا کہ وہ کانگریس کے اہم ستونوں میں سے ایک تھے۔ متعدد کانگریسی سیاست دانوں نے بھی انہیں حراجِ عقیدت پیش کیا۔
سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے انہیں اپنا عزیز دوست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا انتقال ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ انہیں کانگریس پارٹی کے ناک اور کان کہا جاتا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایسے وقت میں جب کہ کانگریس ایک بحرانی دور سے گزر رہی ہے، ان کا انتقال پارٹی کے لیے بڑا نقصان ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے احمد پٹیل کے بیٹے فیصل پٹیل کو ذاتی طور پر فون کر کے اظہار تعزیت کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ احمد پٹیل کے تیز دماغ اور کانگریس پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے ان کے کردار کو ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔
ایک سینئر صحافی اور روزنامہ 'جدید خبر' کے مدیر معصوم مراد آبادی نے ان کو یاد کرتے ہوئے ایک واقعہ بتایا کہ یہ برسوں قبل کی بات ہے جب احمد پٹیل کو دہلی میں زیادہ لوگ نہیں جاتنے تھے۔
اُن کے بقول پارلیمنٹ کے قریب واقع نئی دہلی کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے وقت پانی ختم ہو گیا۔ لوگ وہاں موجود واحد نلکے کی طرف لپکے۔ ایک شخص نلکا چلا کر لوگوں کو وضو کرانے لگا۔ وہ 15، 20 منٹ تک لوگوں کو وضو کراتا رہا۔ میں نے کہا کہ لائیے اب میں چلاتا ہوں۔ لیکن وہ تیار نہیں ہوئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ احمد پٹیل تھے۔
وہ نوعمری میں ہی سیاست میں آ گئے تھے۔ وہ تین بار لوک سبھا کے رکن اور متعدد بار راجیہ سبھا کے رکن رہے۔ 1977 میں جب ایمرجنسی کے بعد کانگریس بری طرح ہاری تھی اور اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی بھی ہار گئی تھیں، وہ بھروچ گجرات سے بی جے پی کی شدید مخالفت کے باوجود کامیاب ہوئے تھے۔
ایک سینئر صحافی کومی کپور کے مطابق احمد پٹیل کو گجرات میں بابو بھائی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ لیکن 1980 کے پارلیمانی انتخابات کے موقع پر فرقہ وارانہ بنیاد پر ووٹروں کو تقسیم کرنے کے لیے بی جے پی نے احمد کے نام سے ان کے پوسٹرز آویزاں کیے تھے۔ اس کے بعد ہی لوگوں کو ان کا اصل نام احمد پٹیل معلوم ہوا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ رواں سال ہونے والے راجیہ سبھا کے انتخابات میں انہیں شکست دینے کے لیے نریندر مودی اور امت شاہ نے بہت کوششیں کیں۔ مگر وہ انہیں شکست نہیں دے سکے۔ الیکشن کے دوران بی جے پی کی جانب سے پرچار کیا جا رہا تھا کہ اگر احمد پٹیل جیت گئے تو یہ پاکستان کی جیت ہو گی۔
ممبئی یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات کے سابق پروفیسر اور روزنامہ 'ٹائمز آف انڈیا' ممبئی کے مستقل کالم نگار، متعدد کتابوں کے مصنف اور ماہر تعلیم پروفیسر اے آر مومن کے انتقال کو اُمت مسلمہ کا بڑا نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔
وہ اردو، فارسی، انگریزی، عربی اور دیگر کئی زبانوں کے استاد تھے۔ قران و حدیث پر ان کو گہرا عبور تھا۔ علمی حلقوں میں بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے رکن شکیل سید ایڈووکیٹ کے انتقال پر بھی افسوس کیا جا رہا ہے۔
جمعیت علمائے ہند کے رہنما مولانا قاری عثمان منصور پوری نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ 1982 سے سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ تھے۔ وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے بابری مسجد مقدمے میں پیروی کر چکے تھے۔ وہ سینٹرل وقف کونسل کے بھی وکیل تھے۔
ان کے انتقال پر بھی سرکردہ مسلم شخصیات نے اظہار تعزیت کیا ہے۔