افغان حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے کابل میں چھاپے کے دوران یونیورسٹی کے ایک پروفیسر سمیت داعش کے چار کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
یہ گرفتاریاں افغانستان میں ان رپورٹس کے بعد ہوئی ہیں کہ داعش افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ افغان مسلح افواج کیلئے شدید خطرہ بن گئی ہے جو پہلے ہی طالبان کی طرف سے حملوں کا سامنا کر رہی ہیں۔
مذکورہ گرفتاریوں کا اعلان کرتے ہوئے افغانستا ن کی خفیہ ایجنسی نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سیکورٹی (این ڈ ی ایس) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مشتبہ افراد افغانستان کے دارالحکومت میں داعش کیلئے بھرتیاں کرنے میں ملوث تھے اور کابل کے اندر اور اس کے قریب دہشتگردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
این ڈی ایس کا کہنا ہے کہ گرفتار کئے جانے والوں میں کابل یونیورسٹی کے لیکچرر مبشر مسلم یار بھی شامل ہیں جبکہ دیگر تین افراد بھی اسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔
اطلاعات کے مطابق ان افراد نے تحقیقات کاروں کو بتایا ہے کہ وہ مشرقی ننگرہار صوبے میں داعش کے کارندوں کے ساتھ قریبی طور پر کام کر رہے تھے اور بہت سے تعلیم یافتہ افغان نوجوان داعش میں شامل ہونے کے خواہشمند ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ این ڈی ایس نے کابل یونیورسٹی کے کسی لیکچرر کو گرفتار کیا ہے۔ اب سے چند ہفتے قبل کابل یونیورسٹی کے ایک اور لیکچرر کو ایسے ہی الزامات میں گرفتار کیا گیا تھا۔
تاہم داعش کی طرف سے ان گرفتاریوں کے بارے میں فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
داعش کی افغانستان شاخ خراسان صوبے (آئی ایس کے پی) کے نام سے موسوم ہے اور ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں داعش کے 2000 کے لگ بھگ کارکن موجود ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ داعش نے افغانستان کے متعدد اضلاع میں اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں اور وہ ننگرہار سے ملحقہ کنر صوبے میں بھی فعال ہیں۔
افغانستان کے صدارتی امیدوار حنیف اتمار کا کہنا ہے کہ داعش نہ صرف افغانستان بلکہ پوری دنیا کیلئے خطرہ ہے۔ حنیف اتمار طالبان کے ساتھ امن سمجھوتے کیلئے امریکی کوششوں کی تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کوششیں کامیاب ہونے کی صورت میں افغانستان دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑنے کے قابل ہو پائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قیام امن انتہائی اہم ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ ملک میں موجود غیر ملکی عسکریت پسندوں سے نمٹنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان طالبان کے ساتھ سمجھوتا طے کرنے میں کامیاب ہو گیا تو غیر ملکی عسکریت پسندوں سے نمٹنا بھی آسان ہو جائے گا۔