فرانس نے مسلمان خواتین کے برقع پہننے پر پابندی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ملکی ثقافتی اور سماجی اقدار کے تناظر میں کیا گیا ہے اور یہ کسی بھی طرح اسلام مخالف نہیں ہے۔
جمعرات کے روز اسلام آباد میں ”عالمی صورتحال پر فرانس کا نقطہ نظر “کے موضوع پر منعقد ایک مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے سفیرڈینیل جویانیوو نے واضح کیا کہ فرانس میں خواتین کے حجاب پہننے پر قطعی کوئی پابندی نہیں ہے اور اسلامی روایات کے مطابق جو بھی عورت حجاب پہننا چاہے اس کا خیر مقدم اور احترام کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ برقع پہننے پر اس لیے پابندی عائد کی گئی ہے کہ مکمل طور پر چہرہ چھپانے سے نہ صرف سلامتی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ یہ فرانس میں خواتین کے وقار سے بھی متصادم ہے ”کیونکہ یہ روز مرہ زندگی میں افراد کے درمیان میل جول مشکل بنا دینا ہے۔“
فرانسیسی سفیرنے کہا کہ جو بھی خواتین فرانس میں رہتی ہیں انھیں اس نئے ملکی قانون کا احترام کرنا ہوگا۔تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فرانس قطعاً اسلام کے حوالے سے کوئی مخالفانہ جذبات نہیں رکھتا جس کا ثبوت ان کے مطابق یہ ہے کہ خود فرانسیسی کابینہ میں مسلمان رکن موجود ہیں۔
ڈینیل جویانیوونے کہا”ہمارے یہاں کئی مساجد قائم ہیں اور اب ہم دومزید بڑی مساجد تعمیر کررہے ہیں تو پھر ہم اسلام مخالف کیسے ہوسکتے ہیں، ہم تو صرف انتہا پسندی کے خلاف ہیں“۔
فرانسیسی سفیر نے یہ بھی وضاحت کی کہ ان کے ملک میں پرائمری کی سطح پر سرکاری اسکولوں میں مسلمان بچیوں کے لیے حجاب پہننے پر پابندی کوئی امتیازی سلوک نہیں ہے کیونکہ اس قسم کی پابندی مسیحی اور یہودی بچیوں کے لیے بھی ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز نہیں پہن سکتیں جو ان کے مذہب کی ترجمانی کرے۔
انھوں نے کہا ”ہم پرائمری اسکولوں کو ایک غیر جانبدار جگہ بنانا چاہتے ہیں جہاں تمام مذاہب کی بچیاں مل کر تعلیم حاصل کریں اور اسکول سے باہر یہ اپنی پسند کا لباس پہن سکتی ہیں۔“