فرانس کی پولیس نے گذشتہ پیر کو ایک شخص کے ہاتھوں ہلاکتوں کے ایک سلسلے کے بعدعسکریت پسندوں کی پکڑ دھکڑ کی اپنی کارروائی میں کئی ایسے مسلمان گرفتار کیے ہیں جن پر اسے انتہاپسند ہونے کا شبہ ہے۔
پولیس نے شمالی اور جنوبی فرانس کے کئی قصبوں میں صبح سویرے کے چھاپوں میں 10 افراد کو حراست میں لے لیا۔
عہدے داروں کا کہناہے کہ انہوں نے تین کلاشنکوف بندوقیں اور بہت سے دستی بم بھی اپنے قبضے میں لیے ہیں۔ گذشتہ ہفتے ایک ایسی ہی کارروائی میں 19 انتہاپسند مسلمانوں کو گرفتار کیا گیاتھا۔
بدھ کے روز کی جانے والی کارروائی گذشتہ ماہ ایک الجزیرہ نژاد فرانسیسی نوجوان محمد مراح کے ہاتھوں گولیوں سے سات افراد کی ہلاکت کے بعد انتہاپسندوں کے خلاف ایک بڑی حکومتی کارروائی کا حصہ ہے۔
پولیس کے ساتھ گولیوں کے تبادلے میں ہلاکت سے قبل مراح نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس کے القاعدہ کے ساتھ رابطے ہیں اور اس نے افغانستان اور پاکستان میں تربیت حاصل کی ہے۔
گذشتہ ہفتے گرفتار کیے جانے والے 13 افراد پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ان میں سے کئی افراد ایک کالعدم اسلامی تنظیم کے رکن ہیں ۔
اس کےساتھ ساتھ فرانسیسی حکام نے پیر کے روز یہ بھی کہا کہ انہوں نے پانچ کٹڑ مسلمان دینی راہنماؤں کو جلاوطن کردیا ہے اور کئی غیر ملکی مسلم دینی راہنماؤں کو ایک اسلامی کانفرنس میں شرکت کے لیے ملک آنے سے روک دیا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ صدارتی انتخابات میں تین ہفتوں سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے، اس پکڑ دھکڑ سے رائے عامہ کے جائزوں میں صدر سرکوزی کی حمایت بڑھی ہے۔
ان کے مخالفین نے پولیس کارروائیوں کے نظام الاوقات پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہاہے کہ حکومت کو یہ کارروائی بہت پہلے کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ حکومت اپنی ان کارروائیوں کی بہت تشہیر کررہی ہے۔