پیرس میں بہت سے مسلمان، جمعے کی نماز مسجدوں میں ادا کرتے رہے ہیں جو نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوتی ہیں۔ اور جب مسجدوں میں جگہ نہیں ہوتی، تو لوگ شہر کی فُٹ پاتھوں پر جائے نماز بچھا لیتے ہیں۔ لیکن اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔
اس مہینے ایک نئے قانون پر عمل در آمد شروع ہو گیا ہے ۔ فرانس کے اندازاً پچاس لاکھ مسلمانوں کو سڑکوں پر نماز ادا کرنے کی ممانعت ہے ۔ یہ قانون اس نظریے کے مطابق ہے کہ مذہب اور مملکت کو ملایا نہیں جا سکتا۔
فرانسیسی حکام نے اس مسئلے کا عارضی حل یہ نکالا ہے کہ شمالی پیرس کے ایک قدیم فائر اسٹیشن میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دی ہے۔
گنی بساؤ کی رہنے والی خاتون اومو ساوانح کے خیال میں یہ فائر اسٹیشن ان کی مقامی مسجد کے مقابلے میں ، جو نصف میل دور واقع ہے، کہیں بہتر جگہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہاں جگہ کی کوئی کمی نہیں، اور نمازیوں کے لیے غسل خانے بھی کافی ہیں۔
الجزائر کے رہنے والے سید رحمانی بھی اس نئے انتظام سے خوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فرانسیسی حکام اب یہ سمجھ گئے ہیں کہ مسلمان اپنی خوشی سے نہیں بلکہ بحالت ِ مجبوری سڑک پر نماز پڑھتے ہیں۔
مسلمان علما کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ کئی ہزار نمازی اس جگہ نماز پڑھیں گے ۔ یہاں ابھی سے گنجائش سے زیادہ لوگ آ رہے ہیں۔ نزدیکی پولو نسیو مسجد کے امام موسیٰ دائکت یہاں امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اس عمارت سے کام چل جائے گا یا نہیں۔ یوں بھی یہ محض عارضی انتظام ہے ۔
پیرس کے حکام اس خیال سے متفق ہیں۔ انھوں نے اس عمارت کے لیے تین سال کی لیز کی پیشکش کی ہے ۔ مقامی عہدیدار رینوڈ ویڈل کہتے ہیں کہ طویل مدت کے لیے، حکومت کا منصوبہ ہے کہ پیرس میں ایک اسلامک انسٹی ٹیوٹ قائم کیا جائے۔ویڈل کہتے ہیں کہ سرکاری پیسہ سینٹر کے ثقافتی حصے پر خرچ ہو گا جب کہ مذہبی حصے کے لیے مسلمان کمیونٹی پیسہ دے گی۔
فرانسیسی مسلمانوں کی بڑی تعداد کا تعلق شمالی افریقہ اور زیریں صحارا کے علاقے سے ہے ۔ یہ لوگ ایک عرصے سے شکایت کرتے رہے ہیں کہ انہیں نئی مسجدوں کی تعمیر میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پیسے کی کمی ہے، دفتری ضابطے بہت مشکل اور وقت طلب ہیں، اور مقامی فرانسیسی باشندوں کی طرف سے مسجدوں کی تعمیر کی مخالفت کی جاتی ہے۔
لیکن دائیں بازو کی نیشنل فرنٹ پارٹی کے ایک سینیئر رکن برونو گولنش کہتے ہیں کہ مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ نئی مسجدیں تعمیر کی جائیں۔’’میری رائے میں حل یہ ہے کہ امیگریشن کو ختم کیا جائے اور ان لوگوں کو واپس ان کے اپنے ملکوں میں واپس بھیجنے کی کوشش کی جائے۔‘‘
فرانس میں آج کل تارکین وطن کے خلاف جذبات بہت عام ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سڑکوں پر نماز پڑھنے پر پابندی کے ذریعے حکومت 2012 کے انتخاب میں ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ اس سے پہلے حکومت نے مسلمان عورتوں پر نقاب استعمال کرنے پر پابندی لگائی تھی۔ ناقدین کے خیال میں یہ بھی ایک سیاسی اقدام تھا کیوں کہ فرانس میں بہت کم مسلمان عورتیں نقاب اوڑھتی ہیں۔
پیرس میں جن مسلمانوں کو انٹرویو کیا گیا انہیں اسلامک سینٹر کی تعمیر کے منصوبے کے بارے میں علم نہیں تھا۔ لیکن ایک نمازی خاتون جنھوں نے اپنا نام رحمہ بتایا ، کہا کہ مسلمانوں کے لیے کسی مرکزی مقام پر بڑی مسجد بنائی جانی چاہیئے، شہر کے دوسرے سرے پر نہیں۔