فرانسیسی خواتین کا ایک گروپ جس نے داعش عسکریت پسند گروپ میں شامل ہونے کے لیے اپنا وطن چھوڑا تھا، اس وقت شام میں زیر حراست ہے۔ یہ گروپ بھوک ہڑتال کیے ہوئے ہے کیونکہ فرانسیسی حکومت نے ان کی اپنے بچوں سمیت فرانس واپسی کی درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے۔
پیرس سے وائس آف امریکہ کے لئے نکولس پیناٹ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شام میں داعش میں شامل ہونے والی کم از کم 12 فرانسیسی خواتین نے گزشتہ ہفتے بھوک ہڑتال شروع کی تھی۔
شام کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ فرانسیسی حکام نے ان خواتین اور ان کے بچوں کو واپس لینے سے انکار کر دیا ہے۔
شام میں کیمپوں یا خفیہ جیلوں میں بند خواتین کی تعداد 80 ہے جب کہ ان کے ساتھ 200 بچے بھی موجود ہیں جو انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔
خواتین نے اپنی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک لامحدود اور بلا جواز حراست قرار دیا ہے۔
ان خواتین کی وکیل میری ڈوز ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ فرانسیسی خواتین شمالی شام میں واقع الہول اور روج کے کیمپوں میں کڑی صورتحال کا سامنا کر رہی ہیں۔ وہ اس صورت حال کو ایک بند گلی سے متشابہ قرار دیتی ہیں، کیونکہ ایک فرانسیسی جج نے ان کی گرفتاری کے لئے بین الاقوامی وارنٹ جاری کیے ہیں اور فرانسیسی عدالتی نظام ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنا چاہتا ہے۔ لہذا یہ فرانسیسی خواتین شام یا شمالی کردستان میں مقدمے کا سامنا نہیں کر سکتیں، لیکن فرانسیسی حکام نے ان کی وطن واپسی سے انکار کر دیا ہے۔
فرانس کو اس انسانی بحران سے نمٹنے کے لئے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے بارے میں اقوام متحدہ کے ایک خصوصی نمائندے نے شام میں ان کیمپوں کو نیم انسانی قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود فرانسیسی حکام مارچ 2019 سے عراق اور شام میں ہونے والے جرائم میں ملوث تمام فرانسیسی شہریوں کی وطن واپسی سے انکار کر چکے ہیں۔
فرانسیسی لیڈروں کے لئے اس تناظر میں یہ ایک مشکل تجویز ہے کیونکہ داعش اندرون اور بیرون ملک سینکڑوں فرانسیسی شہریوں کے قتل میں ملوث ہے۔
فرانس کے وزیر انصاف ایرک ڈوپاں موریٹی کا کہنا ہے کہ فرانس کبھی یہ فراموش نہیں کرے گا کہ ان افراد نے داعش کی جانب سے لڑنے کے لئے اپنے وطن کے ساتھ غداری کی۔ ان کے بقول وطن واپسی اور بحالی ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلہ اور ایک خطرناک مشن ہے جو ان فرانسیسی شہریوں کو کیمپوں سے نکالنے کے لئے فرانسیسی فوجیوں اور ایجنٹوں کے لئے خطرے کا باعث ہو سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اب تک مجموعی طور پر 35 بچوں کو فرانس منتقل کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں 13 جنوری کو ان میں سے آخری گروپ کے بچے واپس پہنچے۔
فرانس میں صدارتی انتخاب سے قبل صورت حال ان خواتین اور ان کے بچوں کے حق میں نہیں ہے کیونکہ سلامتی کے امور کے بارے میں امیدواروں کا موقف اور جہادیوں کے خلاف ان کا لائحہ عمل رائے دہندگان کو متاثر کر سکتا ہے۔
میری ڈوز کا کہنا ہے کہ ان خواتین اور ان کے بچوں کی وطن واپسی کا فیصلہ صرف فرانسیسی صدر ہی کرسکتے ہیں لیکن وہ ایسا کرنے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ فرانس میں 2022 میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل یہ سیاسی طور پر نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
یونیسف نے الہول کیمپ اور شام کے شمال مشرقی علاقوں سے تمام بچوں کی وطن واپسی اور ان کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی کے مطابق اس کیمپ میں کم از کم 60 قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 22،000 غیر ملکی بچے انتہائی مشکل حالات میں رہ رہے ہیں۔