فرانسیسی پارلیمان کے ایوانِ زیریں نے اکثریتِ رائے سے اس متنازع قانون کی منظوری دیدی ہے جس میں دوسری جنگِ عظیم میں ترکی کی عثمانی خلافت کے ہاتھوں آرمینیائی اقلیت کے قتلِ عام کے دعوی ٰسے انکار کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔
ترکی نے خبردار کیا تھا کہ اگر فرانسیسی پارلیمان نے اس قانون کو منظور کیا تو اس کے دونوں ممالک کے درمیان موجود معاشی اور سیاسی تعلقات پہ "سنگین اثرات" مرتب ہوں گے۔
قانون کی منظوری کے بعد ترکی نے پیرس میں تعینات اپنے سفیر کو مشاورت کے لیے وطن واپس بلانے کا اعلان کیا ہے جب کہ انقرہ میں تعینات فرانسیسی سفیر کو وطن واپس جانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ترک حکام کا کہنا ہے کہ حکومت عوامی منصوبوں پہ کام کرنے والی فرانسیسی کمپنیوں کو بھی ملک سے بےدخل کرسکتی ہے۔
آرمینیائی مورخین کا دعویٰ ہے کہ پہلی عالمی جنگ سے قبل اور اس کے دوران ترکی کی عثمانیہ سلطنت نے تقریباً 15 لاکھ آرمینی باشندوں کو قتل کیا تھا۔
کئی ممالک ان ہلاکتوں کو نسل کشی کی منظم واردات قرار دیتے ہیں تاہم ترکی نسل کشی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہتا آیا ہے کہ مقتول آرمینی باشندوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔
ترکی کا موقف ہے کہ اس دور میں آرمینی باشندوں کی اموات خانہ جنگی کے دوران ہوئی تھیں جس میں بہت سے ترک بھی مارے گئے تھے۔
فرانس میں منظور کیے گئے قانون کے تحت ان ہلاکتوں کو نسل کشی ماننے سے انکار کرنے والوں کو ایک سال قید اور 58 ہزار ڈالر جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔
ایوانِ زیریں سے منظوری کے بعد اب اس قانون کو منظوری کے لیے فرانسیسی سینیٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
اس سے قبل ترکی کے وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان نے منگل کو ایک سخت بیان جاری کیا تھا جس میں فرانس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ترکی کے لیے ایک ایسے قانون کو تسلیم کرنا ممکن نہیں ہوگا جس میں اسے نشانہ بنانے والے ناجائز اور بےبنیادالزامات کو رد کرنے کی اجازت نہ ہو۔
ترک وزیرِاعظم نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ قانون کی اس وقت منظوری فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کی جانب سے 2012ء میں اپنے دوبارہ انتخاب کے لیے فرانس میں مقیم چار لاکھ آرمینیائی باشندوں کی حمایت حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے۔
اس سے قبل گزشتہ ہفتے بھی ترک وزیرِاعظم نے مجوزہ قانون پر سخت الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی مؤرخ اور سیاستدان کو ترکی کی تاریخ میں نسل کشی کا واقعہ نہیں ملے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ ترکی کی تاریخ میں نسل کشی تلاش کرنے پر مصر ہیں، انہیں اپنے گریبان میں منہ ڈالنا چاہیے اور خود اپنی گھناؤنی اور خون آشام تاریخ پر نظر ڈالنی چاہیے۔
اس سے قبل ترکی کی حکومت نے قانون کی منظوری روکنے کی غرض سے اراکینِ پارلیمان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی پیرس بھیجاتھا۔
مذکورہ قانون ایک ایسے وقت میں منظور کیا گیا ہے جب ترکی اور فرانس کے درمیان تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں کیوں کہ فرانس کے صدر سرکوزی ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت دینے کی سخت مخالفت کرتے آئے ہیں۔