رسائی کے لنکس

مجوزہ قانون پر ترک فرانس تعلقات کشیدہ


ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوان
ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوان

فرانس کے ایک مجوزہ قانون پر جس کے تحت ان دعوؤں سے انکار کرنا جرم قرار دے دیا جائے گا کہ ترکی نے پہلی عالمی جنگ کے دوران اپنی آرمینیائی اقلیت کی نسل کشی کی تھی، ترکی نے شدید غصے کا اظہار کیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے ۔

ترکی کی حکومت نے پارلیمنٹ کے ارکان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد فرانس بھیجا ہے تا کہ پہلی عالمی جنگ سے پہلے اور اس کے دوران بڑی تعداد میں آرمینین باشندوں کے قتل سے انکار کو جرم قرار دینے کے مجوزہ قانون کے خلاف آخری کوشش کی جائے۔ ترکی نسل کشی کے الزام کو مسترد کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ اموات خانہ جنگی کے دوران ہوئی تھیں جس میں بہت سے ترک بھی مارے گئے تھے ۔

ترکی کے وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان نے ہفتے کے روز مجوزہ قانون پر سخت الفاظ میں تنقید کی۔مسٹر اردوان نے کہا کہ کسی مؤرخ، کسی سیاستداں کو ہماری تاریخ میں نسل کشی کا واقعہ نہیں ملے گا۔ جو لوگ نسل کشی تلاش کرنے پر مصر ہیں، انہیں اپنے گریبان میں منہ ڈالنا چاہیئے اور خود اپنی گھناؤنی اور خون آشام تاریخ پر نظر ڈالنی چاہیئے ۔

مؤرخ کہتے ہیں کہ پہلی عالمی جنگ میں عثمانیہ سلطنت کے خاتمے کے دوران، تقریباً پندرہ لاکھ آرمینی ہلاک ہوئے تھے ۔ کئی ملکوں نے ان ہلاکتوں کو نسل کشی قرار دیا ہے ۔ فرانس کے مجوزہ قانون کے تحت، اس نسل کشی کا انکار کرنے پر، ایک سال قید اور اٹھاون ہزار ڈالر جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔

ترکی اور فرانس کے درمیان تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں کیوں کہ فرانس کے صدر نکولس سارکوزی ترکی کی یورپی یونین کی رکنیت کے سخت مخالف ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق، مسٹر اردوان نے گذشتہ ہفتے مسٹر سارکوزی کو ایک خط بھیجا ہے جس میں انتباہ کیا گیا ہے کہ اگر مجوزہ قانون منظور کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج بر آمد ہوں گے ۔

ترکی کے اخبار ’ملت‘ کے سفارتی نامہ نگار سمیح ادز نے انتباہ کیا ہے کہ اس قسم کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیئے۔’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ بڑا سنگین معاملہ ہے اور حکومت اسے بڑی اہمیت دیتی ہے ۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے وہ نظر انداز کر سکتے ہیں۔ جہاں تک رائے عامہ کا تعلق ہے، ترک اس معاملے میں بہت حساس ہیں۔ آپ اسے معمولی بات سمجھ کر نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘‘

نسل کشی کے الزام کے معاملے پر ترکی کی تمام سیاسی پارٹیاں متحد ہو جاتی ہیں۔ حزب ِ اختلاف کی پیپلز ریپبلیکن پارٹی اپنے منتخب شدہ نمائندوں کاایک وفد پیرس بھیجنے والی ہے جو مجوزہ اختلافی قانون کے خلاف مہم چلائے گا، اور نیشنل ایکشن پارٹی کے لیڈر Devlet Bahceli نے فرانس کے خلاف مسٹر اردوان کے سخت رویے کی کُھل کر حمایت کی ہے۔ تمام پارٹیوں کی متفقہ حمایت کے نتیجے میں، امکان یہی ہے کہ فرانس اور ترکی کے درمیان تعلقات پر شدید اثر پڑے گا ۔ فرانس میں ترکی کے سفیر نے کہا ہے کہ اگر فرانسیسی پارلیمینٹ نے اس ہفتے یہ قانون منظور کر لیا، تو انہیں توقع ہے کہ ان کی حکومت انہیں واپس بلا لے گی۔

گذشتہ ہفتے، ترکی وزیرِ خارجہ احمد داوت غلو نے بڑی بڑی فرانسیسی کمپنیوں کے نمائندوں کو مدعو کیا اور انہیں بتایا کہ ان کے مفادات کو کس طرح نقصان پہنچ سکتا ہے۔ فرانس کی سالانہ بین الاقوامی تجارت کا صرف ڈھائی فیصد حصہ ترکی کے ساتھ ہوتا ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ اس قسم کی دھمکیوں کے اثرات بہت محدود ہوں گے ۔ لیکن اگر یہ تنازع اسی طرح بڑھتا رہا تو اس کے اثرات پوری یورپی یونین پر پڑیں گے ۔

سفارتی نامہ نگار ادز کہتےہیں’’یہ امکان موجود ہے۔ یہ اطلاع ملی ہے کہ ترک وزیرِ خارجہ یورپی یونین کے سفیروں سے ملے اور اس معاملے کے بارے میں ان کا لہجہ بہت سخت تھا۔‘‘

وزیرِ خارجہ داوت غلو نے انتباہ کیا کہ یورپی یونین کی ذمہ داری ہے کہ وہ آزادی ٔ تقریر کی حفاظت کرے۔

شام میں جاری بحران بھی متاثر ہو سکتا ہے ۔ کشیدہ تعلقات کے با وجود، ترکی اور فرانس دونوں نے شام میں حکومت کے مخالف عناصر کے خلاف شامی حکومت کی کارروائیوں کی مذمت کی ہے ۔ لیکن ترک پارلیمینٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ ولکان بوذکر نے انتباہ کیا ہے کہ اگر یہ قانون پاس کیا گیا تو علاقے میں دو طرفہ تعاون کو شدید نقصان پہنچے گا۔

XS
SM
MD
LG