لبنان کے دارالحکومت بیروت میں منگل کو ہونے والے دھماکے کے بعد تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے اور فرانس کے فرانزک ماہرین سمیت 22 رُکنی ٹیم بھی تحقیقاتی عمل میں شریک ہے۔
تحقیقات میں مدد کے لیے آئے ایک فرانسیسی ماہر کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق بظاہر یہ دھماکہ ایک حادثہ لگتا ہے۔
فرانسیسی فرانزک ماہر ڈومینک ایبنانتی نے جمعے کو خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ بظاہر یہ حادثہ لگتا ہے، لیکن فوری طور پر کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا۔
اُنہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ہلاکتیں بڑھ سکتی ہیں کیوں کہ اب بھی ملبے تلے لاشیں موجود ہیں۔
خیال رہے کہ منگل کو بیروت ایک خوفناک دھماکے سے لرز گیا تھا۔ حکام نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ یہ دھماکے بندرگاہ کے قریب ذخیرہ کیے گئے 2700 ٹن امونیم نائٹریٹ کی وجہ سے ہوئے۔
اس دھماکے میں اب تک حکام نے 149 افراد کی ہلاکتوں جب کہ ہزاروں افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
فرانس نے لبنان کی درخواست پر دھماکے کی تحقیقات میں شامل ہونے کی حامی بھری تھی جب کہ اس دھماکے میں ایک فرانسیسی شہری ہلاک جب کہ 40 زخمی بھی ہوئے ہیں۔
ایک فرانسیسی تفتیش کار ایرک بیروٹ نے بتایا کہ اس دھماکے کی تحقیقات کرنا ایک بہت بڑا اور مشکل کام ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ لبنان کی معاشی صورتِ حال کے پیشِ نظر دھماکے کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی کی وجہ سے صورتِ حال پیچیدہ ہے۔
ادھر دھماکے کے تین روز بعد بھی ملبے تلے سے لاشیں نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔ جمعے کو ملبے سے مزید تین لاشیں نکال لی گئی ہیں۔
دھماکے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ عوامی حلقے اس دھماکے کو حکومتی غفلت اور کرپشن کی کڑی قرار دے رہے ہیں۔
جمعرات کی شب مشتعل مظاہرین بیروت میں سرکاری دفاتر کے باہر جمع ہو گئے اور نعرہ بازی کی۔
جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کرنے پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا بھی استعمال کیا گیا۔