واشنگٹن —
امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ اُنھیں امید ہے کہ شام کی حزب مخالف اس ماہ جنیوا میں منعقد ہونے والے امن مذاکرات میں شرکت کرے گی۔
اتوار کو پیرس میں ہونے والے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد، کیری نے کہا کہ مذاکرات میں شریک ہونا تمام فریق کے لیے اعتماد کی آزمائش پر پورا اترنے کا درجہ رکھتا ہے۔
مغربی ممالک کی حمایت سے چلنے والے ’شامی قومی اتحاد‘ نے کہا ہے کہ وہ رواں ہفتے کے آخر تک اس بات کا فیصلہ کرے گا آیا 22 جنوری کی بات چیت میں شرکت کی جائے۔
اپوزیشن راہنماؤں نے امن مذاکرات کے لیے اُسی میز پر بیٹھنے کے بارے میں وسوسوں کا اظہار کیا ہے، جس میز کی دوسری جانب بشار الاسد حکومت کے نمائندے بیٹھے ہوں۔
مسٹر اسد نے کہا ہے کہ حکومتِ شام مذاکرات میں شرکت کرے گی، تاہم اُن کا کہنا تھا کہ صرف شام کے لوگ ہی اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
اتوار کو ’فرینڈس آف سیریا‘ اجلاس میں بولتے ہوئے، فرانسسی وزیر خارجہ، لوہاں فبیوس نے کہا کہ مذاکرات کا ہدف شام میں ایک عبوری حکومت کا قیام ہے، جس کے پاس، بقول اُن کے، ’تمام انتظامی اختیارات‘ ہوں۔
’سیریئن نیشنل کولیشن‘ کے صدر، احمد جاربہ نے کہا کہ شام کے احباب نے اتفاقِ رائے سے فیصلہ کیا ہے کہ ’مسٹر اسد اور اُن کے خاندان کا شام میں کوئی مستقبل نہیں‘۔
’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ نے کہا ہے کہ باغیوں کی آپس کی چپقلش کے باعث گذشتہ نو دِنوں کے اندر اندر شمالی شام میں تقریباً 700 افراد ہلاک ہوچکے ہیںٕ؛ جو کہ 2011ء جب سے ملک کی خانہ جنگی شروع ہوئی ہے، اسد مخالفیں کے درمیان ہونے والی بدترین جھڑپیں ہیں۔
القاعدہ سے منسلک باغی، معتدل اسلام پرست اور باغی جنھیں مغربی حمات حاصل ہے، حالیہ ہفتوں کے دوران ایک دوسرے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
اتوار کو پیرس میں ہونے والے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد، کیری نے کہا کہ مذاکرات میں شریک ہونا تمام فریق کے لیے اعتماد کی آزمائش پر پورا اترنے کا درجہ رکھتا ہے۔
مغربی ممالک کی حمایت سے چلنے والے ’شامی قومی اتحاد‘ نے کہا ہے کہ وہ رواں ہفتے کے آخر تک اس بات کا فیصلہ کرے گا آیا 22 جنوری کی بات چیت میں شرکت کی جائے۔
اپوزیشن راہنماؤں نے امن مذاکرات کے لیے اُسی میز پر بیٹھنے کے بارے میں وسوسوں کا اظہار کیا ہے، جس میز کی دوسری جانب بشار الاسد حکومت کے نمائندے بیٹھے ہوں۔
مسٹر اسد نے کہا ہے کہ حکومتِ شام مذاکرات میں شرکت کرے گی، تاہم اُن کا کہنا تھا کہ صرف شام کے لوگ ہی اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
اتوار کو ’فرینڈس آف سیریا‘ اجلاس میں بولتے ہوئے، فرانسسی وزیر خارجہ، لوہاں فبیوس نے کہا کہ مذاکرات کا ہدف شام میں ایک عبوری حکومت کا قیام ہے، جس کے پاس، بقول اُن کے، ’تمام انتظامی اختیارات‘ ہوں۔
’سیریئن نیشنل کولیشن‘ کے صدر، احمد جاربہ نے کہا کہ شام کے احباب نے اتفاقِ رائے سے فیصلہ کیا ہے کہ ’مسٹر اسد اور اُن کے خاندان کا شام میں کوئی مستقبل نہیں‘۔
’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ نے کہا ہے کہ باغیوں کی آپس کی چپقلش کے باعث گذشتہ نو دِنوں کے اندر اندر شمالی شام میں تقریباً 700 افراد ہلاک ہوچکے ہیںٕ؛ جو کہ 2011ء جب سے ملک کی خانہ جنگی شروع ہوئی ہے، اسد مخالفیں کے درمیان ہونے والی بدترین جھڑپیں ہیں۔
القاعدہ سے منسلک باغی، معتدل اسلام پرست اور باغی جنھیں مغربی حمات حاصل ہے، حالیہ ہفتوں کے دوران ایک دوسرے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔