رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: سیبوں سے لدے ٹرک منڈیوں تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے؟


بھارت کے زیرِانتظام کشمیر میں248 کلو میٹر طویل سرینگر -جموں شاہراہ پر ہزاروں مال بردار ٹرک گزشتہ کئی روز سے قطار میں کھڑے ہوئے ہیں۔ ان ٹرکوں میں سیب اور دیگر پھل لدے ہوئے ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہو رہے ہیں۔

یہ پھل بھارت اور بنگلہ دیش کی مختلف منڈیوں میں پہنچائے جاتے ہیں۔ لیکن سرینگر -جموں شاہراہ کی خستہ حالی، ٹریفک جام اور متعلقہ حکام کی مبینہ رکاوٹوں کے باعث یہ پھل وقت پر منڈیوں تک نہیں پہنچ رہے جس سے کسانوں اور تاجروں کو یومیہ کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

پیر کو باغ بانوں اور پھلوں کے تاجروں نے سرینگر میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا اور یہ الزام دہرایا کہ کشمیرکی فروٹ انڈسٹری کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ حکام اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سرینگر -جموں شاہراہ کی موجودہ حالت مال بردار ٹرکوں کی نقل و حرکت میں رکاوٹوں کی وجہ ہے۔

وادیٔ کشمیر میں تقریباً 10 لاکھ ایکڑ پر پھیلے باغات سے ہر سال تیس لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ پھلوں کی پیداوار ہوتی ہے۔جس میں سیب اور ناشپاتی کی مختلف اقسام کے علاوہ خوبانی، آڑو، اسٹرابیری، شاہ دانہ یا چیری، آلوبخارہ اور بادام وغیرہ شامل ہیں۔اس پیداوار کا 80 فی صد سے زیادہ حصہ برآمد کیا جاتا ہے۔

کشمیر کے مقامی صحافی اور ماہرِ اقتصادیات مسعود حسین کہتے ہیں کہ وادیٔ کشمیر میں پیدا ہونے والے تقریباً 22لاکھ میٹرک ٹن سیب میں سے اٹھارہ لاکھ میٹرک ٹن برآمد کیے جاتے ہیں اور باقی مقامی آبادی کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں برآمد کیےجانے والے سیبوں کا ایک بڑا حصہ "سرکاری بے حسی" کی وجہ سے منڈیوں تک پہنچنے کے دوران ہی خراب ہوگیا ہے یا پھر اس کا معیار متاثرہوا ہے۔ اس طرح باغ بان اور پھلوں کے تاجر غیر معمولی نقصان اٹھارہے ہیں۔

محکمۂ باغبانی کے ایک اعلیٰ عہدے دار غلام رسول میر نے بتایا کہ ہارٹی کلچر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس سےریاست کو سالانہ تقریباً 70 ارب روپے کی آمدن ہوتی ہے اور اس صنعت سے 35 لاکھ افراد کو بلاواسطہ یا بالواسطہ روزگار ملتاہے۔

میوے کے تاجروں اور کسانوں کی ایک تنظیم 'کشمیر ویلی فروٹ گروورز اینڈ ڈیلرز یونین 'کے صدر بشیر احمد بشیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ لوگ میوہ جات کی بیرونی منڈیوں تک ترسیل میں رکاوٹوں اور اس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کی وجہ سے شدید پریشان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سال وادیٔ کشمیر میں پھلوں کی اچھی پیداوار ہوئی ہے۔ لہٰذا کسانوں اور تاجروں کو امید تھی کہ اس سے ان کی مالی مشکلات کم ہوں گی۔لیکن بھارت میں ایران اور دوسرے ممالک سے سیب کی برآمدات میں غیر معمولی اضافےسے کشمیری سیب کو دہلی، بنگلور، ممبئی، کولکتہ اور بھارت کی دیگر منڈیوں میں ماضی کے مقابلے میں بہت کم دام مل رہے ہیں۔

"اب سرینگر -جموں شاہراہ پر میوے سے لدے ٹرکوں کو روکنے کی وجہ سے کشمیری سیب باہر کی منڈیوں تک وقت پر نہیں پہنچ رہا ہے جس سے کسانوں اور تاجروں کو دہرا نقصان ہو رہا ہے۔"

بشیر احمدبشیر کے مطابق اتوار کو کئی سو ٹرکوں کو جواہر ٹنل پار کرنے کی اجازت دی گئی لیکن اب بھی سات سے آٹھ ہزار تک ٹرک پھنسے ہوئے ہیں جن میں لدے سیب اور دوسرے پھل خراب ہو رہے ہیں۔ہر ٹرک کا کرایہ کئی کئی لاکھ روپے ہے لیکن کسانوں اور تاجروں کو پہنچنے والے نقصان کا صحیح تخمینہ ٹرکوں کے منزلِ مقصود تک پہنچنے کے بعد ہی لگایا جاسکتا ہے۔

'ہم جائیں تو جائیں کہاں؟'

بھارتی ریاست ہریانہ کے علاقے دھروہیرہ سے تعلق رکھنے والے ایک ٹرک ڈرائیور گورو یادو نے بتایا کہ وہ کشمیر میں پانچ دن سے رکے ہوئے ہیں اور کافی پریشان ہیں۔

"اگر راستہ کھل بھی گیا تو اتنی بڑی تعداد میں ٹرکوں کو سفر طے کرنے میں مزید کئی دن لگ جائیں گے۔ اس دوران ان میں لدا مال سڑ جائے گا۔ اگر سڑا ہوا مال منزل تک پہنچا بھی دیا تو ممکن ہے کہ وصول کنندہ ہمیں کرایہ دینے سے ہی انکار کردے۔ ہم جائیں تو جائیں کہاں؟"

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی انتظامیہ کے سربراہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے گزشتہ دنوں متعلقہ حکام کو ہدایات دی تھیں کہ وہ سرینگر -جموں شاہراہ پر ان ٹرکوں کو بلا روک ٹوک چلنے کی اجازت دیں جن میں پھل لدے ہوں۔ لیکن بشیر احمد بشیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اوپر سے احکامات تو صادر کیے جاتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کیا جا رہا۔

'کشمیر کی معیشت کو دانستہ نقصان پہنچایا جا رہا ہے'

بعض سیاسی جماعتوں، قائدین اور کاشت کاروں کا الزام ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی معیشت کو تباہ کرنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے۔

بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ اور حزبِ اختلاف کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ''میوےسے لدے ٹرکوں کو جان بوجھ کر کئی دن تک روکے رکھنے کے بعد لیفٹننٹ گورنر کی انتظامیہ اب قبائلیوں اور ان کے مال مویشیوں کی نقل و حرکت میں مداخلت کر رہی ہے۔ لگتا ہے کہ انتظامیہ جموں و کشمیر کے ہر باشندے اور ہر طبقے کو بری طرح سے اذیت پہنچانے کے درپے ہے۔''

انہوں نے اس سے پہلے ایک اور ٹویٹ میں کہا تھا''سیب کی گرتی قیمتوں اور اس کی نقل و حمل میں رکاوٹوں کی وجہ سے یہ صنعت تقریباً تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ ہارٹی کلچر کشمیر کی معیشت میں ریڈ ھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہےاور سرکار اپنی عدم توجہ سے اس صنعت کو ختم کررہی ہے۔ سرکار کو چاہیے کہ اس طرف توجہ دے تاکہ معیشت کو بھی بچایا جاسکے۔''

غلام محمد ماگرے نامی ایک باغ بان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا ذائقے دار پھل بھارت بھر میں اور بیرونِ ملک بھی اپنا الگ مقام رکھتا ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ کشمیری سیب کو بیرونی منڈیوں تک پہنچانے میں بلاوجہ رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں جو ایک افسوس ناک امر ہے۔

لیکن دوسری جانب کشمیر کے چیف سیکریٹری ڈاکٹر اشوک مہتہ کہتے ہیں کہ حکومت یا انتظامیہ میوہ اگانے والوں اور اس کا کاروبار کرنے والوں کو درپیش مشکلات سے غافل یا لاتعلق نہیں ہے۔ پھل لے جانے والے ٹرکوں سے متعلق پولیس اور ہائی وے اتھارٹیز کو ضروری ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ اگلے تین سے چار روز میں حل ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وادیٔ کشمیر کو جموں اور بھارت کے مختلف علاقوں سے ملانے والے متبادل راستے مغل روڈ کو بھی مال بردار ٹرکوں کی آمد و رفت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

بھارتی کشمیر میں 'لیونڈر' کی کاشت: پودا کتنا منافع بخش ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:54 0:00

حکام کا کہنا ہے کہ سرینگر- جموں شاہراہ کو کشادہ کرنے اور جدید طرز پر استوار کرنے کے لیے اس پر کئی ٹنل اور پل تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ اور اس کام کو باآسانی انجام دینے کے لیےشاہراہ کو چیف سیکریٹری کے احکامات کے مطابق ہر روز چار گھنٹےکے لیے بند کیا جا رہا ہے جو اس پر ٹریفک جام ہونے کی ایک بنیادی وجہ ہے۔

اس کے علاوہ بارشوں اور خراب موسم کے باعث شاہراہ کے کئی حصوں پر مٹی کے تودے اور پتھر گرنے کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔اس کی وجہ سے شاہراہ پر مسافر گاڑیوں اور پیدل چلنے والوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ادھر شاہراہ کی اپ گریڈیشن یا اسے بہتر بنانے کے کام پر مامو ر تعمیراتی ایجنسیوں کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ تاہم انسپکٹر جنرل آف پولیس (ٹریفک) وکرم جیت سنگھ نے بتایا کہ تمام متعلقہ پولیس افسران بشمول شاہراہ کے مختلف حصوں کے ذمہ دار سپرنٹنڈنٹس کو ایک مرتبہ پھر یہ ہدایت جاری کی گئی ہیں کہ وہ پھلوں سے لدے ٹرکوں اور دوسری گاڑیوں کے با آسانی گزرنے کو یقینی بنانے کے لیےفوری ضروری اقدامات کریں۔

بشیر احمد بشیر نے بتایا کہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی حکام کے ساتھ ایک اور ملاقات ہورہی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس ملاقات میں میوے کے تاجروں اور کسانوں کو درپیش مشکلات کا ضرور حل نکالا جائے گا۔ انہوں نے کہا''اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو ہم سب اس قدر نقصان سے دوچار ہونگے جس کی تلافی ممکن نہ ہوگی۔''

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG