رسائی کے لنکس

ایران میں احتجاج کی دسویں رات, 41 مظاہرین ہلاک 1200 گرفتار، مغرب کی مذمت


IRAN-PROTEST-WOMEN-RIGHTS
IRAN-PROTEST-WOMEN-RIGHTS

ویب ڈیسک۔ ایران کی بدنام زمانہ اخلاقی پولیس کی حراست میں کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہےاور صرف ایران میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اس کے خلاف احتجاج جاری ہے ۔

ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف بھاری تعداد میں سکیورٹی فورسز کو تعینات کر دیا گیا ہے،ایرانی حکام نے پیر کو بتایا کہ 10 راتوں سے جاری شورش کو طاقت سے کچلنے کے دوران کم از کم 41 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور پکڑ دھکڑ میں بارہ سو سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔

22 سالہ امینی کو حجاب سے متعلق ایران کے سخت قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتارکیا گیا تھا ،جہاں پولیس کی حراست میں ، مبینہ طور پر تشدد سے ان کی موت واقع ہوئی۔

ایران بھر میں مظاہرے راتوں رات ایک بار پھر بھڑک اٹھے، تہران کے ایک ہجوم نے سپریم لیڈر 83 سالہ آیت اللہ علی خامنہ ای کی تین دہائیوں سے زائد کی حکمرانی کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے "ڈکٹیٹر مردہ باد" کے نعرہ لگائے۔

اے ایف پی کی طرف سے شائع ہونے والی حالیہ ویڈیو فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ سیاہ حفاظتی جیکٹوں میں ملبوس ایرانی پولیس، مظاہرین کو ڈنڈوں سے زدو کوب کر رہی ہے ، اور برہم طلباء نے جواباً سپریم لیڈر اور ان کے پیش رو آیت اللہ روح اللہ خمینی کی بڑی تصاویر کو پھاڑ دیا یا انہیں آگ لگا دی۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق، مظاہرین نے پتھراؤ کیا، پولیس کی گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور عوامی عمارتوں کو نذر آتش کیا۔

ایران کے انسانی حقوق کے ایک گروپ نے اتوار کو کہا کہ مظاہروں کے دوران اب تک کم از کم 57 مظاہرین مارے گئے ہیں۔ ایرانی میڈیا کے مطابق کئی سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہو ئے ہیں۔

انٹرنیٹ پر پابندیوں کے باوجود، سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر شیئر کی جانے والی نئی ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ اتوار کی رات تہران اور خلیج فارس کے یزد، اصفہان اور بوشہر سمیت کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے ہیں۔

دیگر رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ تہران اور الزہرہ یونیورسٹیوں اور شریف انسٹی ٹیوٹ کے طلباء نے ہڑتال کر دی ہے، کلاسوں میں جانے سے انکار کر دیا اور اپنے پروفیسرزپراحتجاج میں شامل ہونے پر زور دیا ہے۔

ناروے میں مقیم کرد حقوق کے گروپ ہینگاو نے کہا کہ امینی کے آبائی شہر ساقیز میں "بھاری فوج کی موجودگی کے باوجود" ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور اطلاعات ہیں کہ ایک 10 سالہ لڑکی کو شمالی قصبے بوکان میں گولی لگنے کے بعد ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔

خبر رساں ادارے تسنیم نے تقریباً 20 احتجاجی قائدین کی تصاویر شائع کیں، جن میں متعدد خواتین بھی شامل ہیں۔یہ تصاویر مقدس شہر قم میں لی گئی ہیں۔ فوج اور سیکورٹی فورسز شہریوں سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ ان لیڈروں کی شناخت کریں اور حکام کو مطلع کریں۔

خواتین مظاہرین نے اپنے نافرمانی کے اظہار میں اپنے حجاب کو الاؤ اور جلتے ہوئے کوڑے کے ڈھیروں میں پھینک کر جلا دیا اور نعرے لگائے ،عورت، زندگی، آزادی۔ اس ریلی کی بازگشت اختتام ہفتہ ، لندن اور پیرس سمیت دنیا بھر میں یکجہتی کے مظاہروں میں گونج رہی ہے۔

اسلامی جمہوریہ اور مغربی ممالک کے درمیان اس وقت تناؤ بڑھ گیا جب جرمنی نے ایرانی سفیر کو طلب کیا، جس کے ایک دن بعد یورپی یونین نے "طاقت کے وسیع اور غیر متناسب استعمال" پر احتجاج کیا اور تہران نے برطانوی اور ناروے کے سفیروں کو طلب کیا۔

یورپی یونین نے ایران پر تنقید کی اور اتوار کو اس کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے ایک بیان میں کہا کہ پر امن مظاہرین کے خلاف طاقت کا وسیع اور غیر متناسب استعمال بلاجواز اور ناقابل قبول ہے۔

انہوں نے کہا کہ یورپی یونین مہسا امینی کے قتل سے نمٹنے کے لیے اپنے اختیار میں موجود تمام آپشنز پر غور جاری رکھے گی۔

جرمنی نے پیر کو کہا کہ اس نے مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن پر ایرانی سفیر کو طلب کیا ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نے برلن میں کہا کہ میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ ہم نے ایرانی سفیر کو طلب کیا ہے اور بات چیت آج دوپہر کو ہو گی۔

تہران نے اتوار کو بتایا کہ اس نے برطانیہ کے سفیر کو طلب کرکے، بقول ان کے لندن میں قائم فارسی زبان کے میڈیا کی طرف سے" بلوؤں کی دعوت" پر احتجاج کیا ہے۔ اسی طرح ایران نے ناروے کے ایلچی کو بھی ان کے ایک پارلیمانی اسپیکر کی طرف سے تہران کے بقول ایک غیر تعمیری تبصرے،پر احتجاج کے لئے طلب کیا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے ایرانی مظاہرین کو سلام کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو بتایا تھا کہ ،ہم اس وقت اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیےاحتجاج کرنےوالےایران کے بہادر شہریوں اور بہادر خواتین کے ساتھ کھڑے ہیں۔

XS
SM
MD
LG