ویب ڈیسک۔جاپان میں جمعے کے روز سات ترقی یافتہ معیشتوں کے گروپ کے بند دروازے کے مالیاتی مذاکرات کے ایجنڈے میں اقتصادی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بینکوں کو چلانا، سائبر سیکیورٹی اور مزید قابل اعتماد سپلائی چینز کی تشکیل سمیت اہم موضوعات شامل تھے۔
جی سیون اجلاس میں وسیع تر مسائل کے ساتھ ساتھ یوکرین جنگ کے تناظر میں چین اور روس کے ساتھ کشیدگی ایک کلیدی مسئلے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ جاپان جی سیون کا واحد ایشیائی رکن ہے ۔
جی سیون کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینک کے سربراہان نے بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر کے تحفظ اور اسے روکنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا جسے وہ چین کی طرف سے ’’معاشی جبر‘‘ قرار دے رہے ہیں ۔ بیجنگ نے اس کے رد عمل میں متمول ممالک کے کلب پر منافقت کا الزام عائد کیا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے جمعہ کو کہا کہ چین اقتصادی جبر کا شکار ہے۔ وانگ نے معمول کی نیوز بریفنگ میں کہا کہ ’’ اگر کسی ملک کو معاشی جبر کے لیے ہدف تنقید بنانا چاہیے تو وہ امریکہ ہے ۔ امریکہ قومی سلامتی کے تصور کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہوئے برآمدی کنٹرول کا غلط استعمال کر رہا ہے اور غیر ملکی کمپنیوں کے خلاف امتیازی اور غیر منصفانہ اقدامات کر رہا ہے۔‘‘
چین نے واشنگٹن پر الزام لگایا ہے کہ وہ تجارت اور سرمایہ کاری پر پابندیوں کے ذریعے تیزی سے متمول بنتی ہوئی جدید قوم کے طور پراس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہا ہے جو امریکہ کے بقول امریکی اقتصادی سلامتی کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔
امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے بات چیت شروع ہونے سے پہلے کہا کہ اس طرح کے اقدامات ’’محدود ہدف‘‘ ہیں اور یہ قومی سلامتی پر مرکوز ہیں۔
ییلن نے کہا کہ ’’اس کا مقصد چین کی اقتصادی مسابقت کو کم کرنا یا انہیں اقتصادی طور پر آگے بڑھنے سے روکنا نہیں ہے۔‘‘
اس سوال پر کہ جی سیون ممالک کا چین کی طرف سے’’معاشی جبر‘‘ کو روکنے کی کوشش سے مراد کیا ہے، ییلن نے مثال کے طور پر آسٹریلیا کے خلاف بیجنگ کے تجارتی اقدامات کا حوالہ دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’’ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ چین جیو پولیٹیکل نقطہ نظر سے جن ممالک سے خوش نہیں ہے ان کے خلاف اقتصادی جبر کا استعمال کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرتا ہے‘‘ ۔
انہوں نے کہا کہ ’’ جی سیون میں اس قسم کی سرگرمی کے بارے میں ہماری تشویش مشترک ہے اور ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس قسم کے رویے کا مقابلہ کرنے کے لیے کس نوعیت کی کوشش درکار ہے‘‘۔
27 ممالک پر مشتمل یورپی یونین کے ساتھ چین کے تعلقات، تجارت اور روس کے لیے اس کی خاموش حمایت کی وجہ سے بھی کشیدگی کا شکار ہیں۔نیگاتا میں منعقد ہونے والے جی سیون اجلاس میں شریک رہنماؤں نے کہا کہ وہ مختلف ممالک کی جانب سے روس پر عائد شدہ پابندیوں سے بچنے کی کوششوں کو روکنے کے طریقوں پر غور کریں گے جن سے روس کی جنگ جاری رکھنے کی صلاحیت کو روکا جا سکتا ہے۔
امریکہ اور یورپی یونین دونوں کا موقف ہے کہ وہ چین کے ساتھ ’’ڈی کپلنگ‘‘ یا وسیع اقتصادی تعلقات کو ختم کرنے کی وکالت نہیں کر رہے لیکن چین پر زیادہ انحصار سے بچنے کے لیے’’ خطرے سے پاک‘‘ تعلقات کی حمایت کرتے ہیں۔
امریکہ اور یورپ میں بینکوں کی حالیہ ناکامیوں کے نتیجے میں عالمی معیشت کی وبائی مرض کرونا کے بعد مستقل بحالی کی پیچیدگی میں اضافہ ہواہے جب کہ کئی دہائیوں کے بعد افراط زر کی بلندتر سطح پر بھی کنٹرول کیا گیا ہے ۔جاپان کے وزیر خزانہ شونیچی سوزوکی نے جمعرات کو کہا کہ ’’ یہ واضح ہے کہ مالیاتی مسائل سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے ذریعے فوری طور پر پھیل سکتے ہیں اور آن لائن بینکنگ کی وجہ سے کاروباری اوقات کے علاوہ بھی رقم نکالنے اور بینکوں کا کام جاری رہ سکتا ہے‘‘۔
یورپی مرکزی بینک کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ نے آن لائن پوسٹ کیے گئے ویڈیو ٹیپ تبصروں میں کہا کہ ’’ نیگاتا میں جاری بات چیت خیالات کا موازنہ کرنے اور جائزہ لینے کا ایک اچھا موقع ہے کہ ہم دنیا کو کیسے مزید مستحکم بنا سکتے ہیں اور مختصر وقت میں قیمتوں میں استحکام لا سکتے ہیں۔‘‘
مالیاتی ماہرین کے مذکرات میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا امریکی حکومت کے پاس بلوں کی ادائیگی کے لیے رقم ختم ہونے سے پہلے صدر جو بائیڈن اور کانگریس قومی قرضوں کی حد میں اضافے سے متعلق معاہدے پر پہنچ سکیں گے۔ ییلن نے کہا کہ قومی قرض کا ڈیفالٹ تباہ کن ہوگا اور یہ ’’ناقابل تصور‘‘ بھی ہے ۔
بائیڈن اور قانون سازوں کے درمیان اس معاملے پر ہونے والی میٹنگ کو 18 مئی تک مؤخر کر دیا گیا ہے تاکہ عملے کے درمیان ہونے والی بات چیت اختتام ہفتہ بھی جاری رہ سکے ۔ انتظامیہ کے اہل کاروں نے اسے ایک مثبت قدم کے طور پر پیش کیا ہے اور یہ بات چیت میں کسی تعطل یا رکاوٹ کی نشاندہی نہیں کرتی ۔
بحیرہ جاپان کے اس بندرگاہی شہر میں تین روزہ مذاکرات سربراہی اجلاس کی تیاری کے سلسلے میں ہونے والے وزارتی اجلاسوں کے سلسلے میں آخری ہیں جس کے بعد آئندہ ہفتے ہیروشیما میں جی سیون رہنماؤں کا سربراہی اجلاس ہو گا ۔
(اس رپورٹ کے لیے معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)