عالمی طاقتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی مخاصمت اور یوکرین جنگ کے باعث پاکستان جیسے ملکوں کے لیے متوازن خارجہ پالیسی کے مؤقف پر قائم رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
یہ بات حال ہی میں امریکی اخبار ' واشنگٹن پوسٹ' میں افشاں ہونے والے مبینہ میمو میں بھی سامنے آئی ہے کہ یوکرین کے معاملے پر پاکستان کے لیے اپنی غیر جانب دار پوزیشن برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
لیک ہونے والی دستاویزات کے مطابق پاکستان کی وزیرِ مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر نے مارچ میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کو مشورہ دیا کہ پاکستان امریکہ اور چین کے درمیان نیوٹرل رہنے کے مؤقف پر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔
لیک کے مطابق حنا ربانی کھر نے وزیرِ اعظم سے کہا کہ پاکستان کو ایسی پالیسی اپنانے سے گریز کرنا چاہیے جس سے یہ تاثر جائے کہ وہ مغرب کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ کے ساتھ شراکت داری برقرار رکھنے کی خواہش سے چین کے ساتھ اصل 'اسٹرٹیجک شراکت داری قربان نہیں کی جا سکتی۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اس مبینہ میمو کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے اور وائس آف امریکہ کی درخواست کے باوجود اس کی تردید کی ہے نہ ہی تصدیق۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کو اندرونی طور پر خراب معاشی حالات میں امریکہ اور مغربی ممالک کے دباؤ کا سامنا ہے تو دوسری طرف چین کے ساتھ دیرینہ اسٹرٹیجک شراکت داری ہے۔
'امریکہ یا چین پاکستان کے لیے یہ فیصلہ آسان نہیں'
مبصرین کا کہنا ہے کہ علاقائی اور عالمی تناظر میں تیزی سے بدلتے حالات میں پاکستان کو ایک نئی صورتِ حال کا سامنا ہے اور ماضی کی سرد جنگ میں اسلام آباد مغرب کا قریبی اتحادی ہونے کے باوجود بیجنگ سے بھی اسٹرٹیجک تعلقات بڑھاتا رہا ہے۔
بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ 'واشنگٹن پوسٹ' کی رپورٹ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حالات اس نہج پر آ گئے ہیں کہ اب پاکستان کو امریکہ کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کا چیلنج درپیش ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان لیکس میں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ حالیہ برسوں میں یہ بات زیربحث رہی ہے۔
اُن کے بقول گزشتہ چار برس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا چیلنج یہ رہا ہے کہ اسلام آباد، بیجنگ اور واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کو کیسے متوازن رکھے۔
وہ کہتی ہیں کہ عالمی سطح پر بڑی طاقتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت کے پیشِ نظر یہ معاملہ پاکستان کے پالیسی ساز حلقوں اور ماہرین میں بھی زیر بحث رہا ہے۔
ان کے بقول پاکستان کے خارجہ پالیسی کے ماہرین اور خارجہ پالیسی کے فیصلہ کرنے والے اس بارے میں منقسم ہیں کہا کہ آیا پوری طرح چین، روس بلاک میں شامل ہوا جائے یا مغربی بلاک کے ساتھ تعلقات کو بہتر کیا جائے۔
تاہم وہ کہتی ہیں کہ حتمی اتفاق رائے اس بات پر ہے کہ پاکستان کو کسی ایک بلاک میں شامل ہونے کے بجائے دونوں بلاکس کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
'پاکستان کے لیے کسی ایک طرف جھکاؤ ممکن نہیں'
سابق سفارت کار نجم الثاقب کہتے ہیں کہ ـ چین ہمارا دیرینہ دوست ہے جس سے تعلقات کی تاریخی اور سیاسی وجوہات ہیں۔
دوسری جانب امریکہ پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈی اور واحد سپر پاور ہے تو ایسے میں اسلام آباد کیسے سوچ سکتا ہے کہ کسی ایک طرف اپنا جھکاؤ ظاہر کرے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ نائن الیون اور چین پاکستان راہداری منصوبے کے بعد اسلام آباد کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ اپنا جھکاؤ کسی ایک طرف ظاہر کرے۔
وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ حکومت نے خارجہ محاذ پر کچھ بڑے فیصلے لیے تاکہ یہ ظاہر کیا جاسکے کہ وہ چین کے ساتھ ہیں جیسا کہ بیجنگ اولمپکس میں شرکت اور جمہوریت کانفرنس میں نہ جانا اور اسی طرح روس کا ایسے وقت دورہ کرنا جب وہ یوکرین پر حملہ آور ہو رہا ہو۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے ایک سے زائد بار امریکہ کے دورے پر جاکر یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام آباد واشنگٹن سے اچھے مراسم چاہتا ہے۔
'مغرب نے اقتصادی تعاون نہ کیا تو اسلام آباد کا جھکاؤ چین کی طرف ہوسکتا ہے'
ہما بقائی کہتی ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کوئی ابہام نہیں ہے لیکن بعض مجبوریوں کی وجہ سے پاکستان کسی بلاک کا حصہ بنے بغیر امریکہ اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن رکھنے کے لیے کوشاں رہے گا۔
ہما بقائی کہتی ہیں کہ اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی مجبور ی اس کی اقتصادی مشکلات ہیں جب پاکستان کی طرف سے بظاہر عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی شرائط پرعمل کرنے کے باوجود ابھی تک پاکستان کا بیل آؤٹ پروگرام بحال نہیں ہوا ہے۔
اُن کے بقول ماضی میں جب پاکستان اورامریکہ کے درمیان اسٹرٹیجک اتفاق رائے رہا اس وقت پاکستان کو کبھی ایسی صورتِ حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
ہما بقائی کہتی ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے معاملات کو سلجھانے کے لیے مغرب سے روابط رکھے گا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اگر مغرب پاکستان کی مجبوریاں کا پوری طرح خیال نہیں کرتا تو پاکستان مکمل طور پر چین کی جانب راغب ہو جائے گا۔
'سیاست نہیں سفار ت کاری کو سامنے رکھ کر فیصلے لیے جائیں'
ماہرین کا کہنا ہے کہ سرد جنگ کے دوران اور اس کے بعد کے برسوں میں واشنگٹن کے ساتھ بہت قریبی ہم آہنگی کے باوجود پاکستان کی چین کے ساتھ شراکت داری جاری رہی ہے۔ لہذٰا اب بھی چین کو پاکستان کے مغربی ملکوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
نجم الثاقب کہتے ہیں کہ دنیا نظریاتی طور پر دو حصوں میں بٹ چکی ہے لیکن یہ تقسیم ابھی عملی صورت میں سامنے نہیں آئی ہے۔
ان کے بقول اگر پاکستان سفارتی اصولوں پر کام کرے تو یہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمیں امریکہ کی طرف جانا ہے یا چین کی طرف بلکہ سفارت کاری کا مطلب ہی یہی ہے کہ دنیا سے متوازن حکمتِ عملی کے تحت تعلقات رکھے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے بہت سے ممالک ابھی تک غیر جانب دار رہنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ لہذٰا پاکستان کو اس وقت سیاسی نہیں بلکہ سفارت کاری کو سامنے رکھ کہ دوستی کی بات کرنی چاہیے۔