اگست کا مہینہ شروع ہوچکا ہے۔ چند روز بعد پاکستان اور بھارت اپنی اپنی آزادی کا جشن منائیں گے۔ یہ وہی مہینہ ہے جب دونوں ممالک کی درمیانی زمین پرہمیشہ کے لئے سرحدی لکیر یں کھینچ دی گئی تھیں۔
ان لکیروں کو کھینچے 71 سال ہو گئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لکیریں آج تک دلوں کو تقسیم نہیں کر سکیں۔ ایک کے بعد ایک نسل جوان ہوتی گئی لیکن سرحد کے دونوں جانب رہنے والوں کے درمیان رشتے داریاں آج بھی قائم ہیں۔
دونوں جانب کے لوگوں کے دل ایک دوسرے سے ملنے کو تڑپتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مجبوریوں اور سفری مشکلات کے باعث دل مسوس کر رہ جاتے ہیں تو کچھ کسی نہ کسی طرح اپنوں سے ملنے سرحد پار پہنچ ہی جاتے ہیں۔
جیسے ریشماں اور ان کے بیٹے صاحب خان پاکستان کیا آئے, ایک تاریخ رقم کر گئے۔ انہی کے سبب 12 سال بعد کھوکھرا پار۔موناباؤ سرحد کے دروازے مختصر وقت کے لئے کھول دیئے گئے۔
ریشماں پاکستان آئیں اور اس کی محبت میں دل ہی نہیں، جان بھی ہار گئیں۔ ان کا انتقال 25 جولائی کو ہوا جبکہ انہیں طے شدہ شیڈول کے مطابق 28 جولائی کو بھارت واپس جانا تھا ۔
ریشماں بھارتی ریاست راجستھان کے ضلع برمر کے گاؤں آگاسدی کی رہائشی تھیں۔ وہ 30 جون کو سندھ کے شہر سانگھڑ میں اپنے رشتے داروں سے ملنے آئی تھیں۔ اپنی واپسی سے صرف تین روز پہلے ان کی طبیعت اس قدر بگڑی کہ 25 جولائی کو ان کا انتقال ہو گیا۔
ریشماں کا خاندان ان کی تدفین راجستھان کے آبائی علاقے میں کرنا چاہتا تھا لیکن کاغذی کارروائیاں پوری کرنے تک ہفتے میں ایک دن چلنے والی ٹرین ’تھرایکسپریس ‘ان سے مس ہو گئی۔ ویزے کے وقت کا تقاضہ پورا کرنے کے لئے ایک ہی حل تھا کہ ان کی میت کھوکھراپار۔موناباؤ سرحد سے بھارت روانہ کی جائے ۔
کسی طرح کھوکھراپار۔موناباؤ سرحد سے میت لیجانے کی اجازت تو مل گئی لیکن یہاں لگے سرحدی دروازے بند تھے جنہیں کھولنا از خود ایک مشکل مرحلہ تھا۔ یہ دروازے دونوں ممالک کے درمیان 1965ء میں ہونے والی جنگ کے بعد سے بند تھے اور آخری مرتبہ صرف 2006 میں صرف میں کچھ ہندو یاتریوں کے لئے لسبیلہ، بلوچستان میں ’ماتا مندر‘کی یاترا کے لئے کھولے گئے تھے۔ جب سے اب تک سرحد پار جانے اور آنے کے لئے ’تھرایکسپریس ‘ہی واحد ذریعہ ہے۔
آخر کار دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدے کے تحت کھوکھرا پار۔موناباؤ سرحد کو کھولا گیا اور ریشماں کی میت بھارتی بارڈرسیکورٹی فورس کے حوالے کر دی گئی۔ ریشماں کے بیٹے ’صاحب خان‘ بھی اپنی والدہ کی میت کے ساتھ ہی بھارت واپس چلے گئے۔
کھوکھرا پارموناباؤ سرحد کھلوانے میں اہم کردار برمر، راجستھان کے رکن اسمبلی من ویندر سنگھ نے ادا کیا ورنہ یہ وہ سرحد ہے جسے کسی کو بھی پیدل چل کر عبور کرنے کی اجازت نہیں۔ البتہ لاہور کے قریب واقع واہگہ بارڈر پر اس طرح کا نظام موجود ہے کہ دونوں ممالک کے شہری اسے پیدل عبور کر سکتے ہیں۔
تاریخ
پاکستان اور بھارت میں کھوکھراپار-مونا باؤ ٹرین چلانے کے معاہدے میں رواں سال کی ابتدا میں ہی 2021 تک یعنی تین سال کی توسیع کی گئی ہے۔ دونوں ممالک میں لاہور سے چلنے والی سمجھوتا ایکسپریس کے آغاز کے وقت پہلا ریل سروس معاہدہ 28 جون 1976 میں طے پایا تھا جو 1972 کے شملہ معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کا ایک حصہ تھا۔ معاہدے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس بحال ہوئی جبکہ دونوں ممالک کے درمیان 2006 میں تھر ایکسپریس بھی چلائی گئی۔ تھر ایکسپریس کراچی اور بھارتی شہر جودھپور کے درمیان چلتی ہے۔ اسے موناباؤ-کھوکھراپار ٹرین سروس بھی کہا جاتا ہے۔
اس حوالے سے کراچی کے ایک بزرگ شہری ایس ایم نقوی نے وی او اے سے گفتگو میں کہا ’دل بڑے ہوں تو سرحدیں چھوٹی ہو جاتی ہیں۔ کشیدگی کے باوجود 12 سال بعد سرحدی تالے کھلنا تاریخی امر ہے۔ ‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ’اگر دیوار برلن گر سکتی ہے، شمالی و جنوبی کوریا کی فضاؤں سے جنگ کے بادل چھٹ سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کے تعلقات کیوں اچھے نہیں ہو سکتے ۔‘
ایک اور خاتون نسیم حمزہ نے کہا ’نامزد وزیراعظم عمران خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ایک قدم وہ آگے بڑھائیں تو دو قدم ہم آگے بڑھائیں گے۔ اب بال دوسرے اینڈ پر ہے، نئے تعلقات کی شروعات کا یہ اچھا موقع ہے۔ ‘
ایک اور خاتون رفیق النساء کا کہنا ہے ’میری نظر میں تعلقات کی بہتری کے لئے پہلا اقدام عوام سے عوام کا رابطہ آسان بنانا ہے۔‘
بھارت کا سفر کرنے کی خواہشمند ایک نوعمر صحافی شیما صدیقی کا کہنا تھا’ لوگوں کو ایک دوسرے کے ملک آنے جانے کے لئے ویزے کے حصول کو آسان بنانا ہوگا اور بے شمار سفری مشکلات ختم کرنا ہوں گی۔ واہگہ بارڈر پر مسافروں کے لئے اچھا نظام موجود ہے تو کھوکھراپار۔مونا باؤ سے بھی بے جا رکاوٹیں ختم کرنے کے لئے نظام بنانا ہو گا۔ ‘
سن 1947 میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان ہجرت کرنے والے اور فروری 2007 میں بھارت سے وطن واپس آتے ہوئے سمجھوتا ایکسپریس میں دھماکے کے ساتھ آگ لگنے کے واقعے سے زخمی ہونے والے مسعود عالم نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا ’جو مسائل ہیں ان کا حل مذاکرات کی ٹیبل پر ہی تلاش کرنا ہوگا۔ جنگیں تو ہو چکی ہیں ان سے نہ محبتیں ختم ہوئیں نہ مسائل حل ہوئے ، ہاں ایک دوسرے سے ملنے کے انتظار میں ان گنت خاندانوں کی خواہشیں تمناؤں میں بدل گئیں اور کتنی ہی آنکھیں اپنے پیاروں کے انتظار میں سرحدوں کو تکتے پتھرا گئیں۔ لیکن اب نہیں۔ بہت ہو گیا۔ ان آرزوؤں کو اب محبتوں کے دریاؤں میں بہانا لازمی ہے۔‘