|
قبرص میں امدادی سامان سے بھرا ہوا ایک بحری جہاز، اس نئی سمندری راہداری کے ذریعے غزہ جانے کے لیے تیار ہے، جس کا اعلان صدر جو بائیڈن نے اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں جمعرات کو کیا تھا۔ یورپی کمشن کی صدر نے جمعے کو کہا ہے کہ سمندری راستے سے یہ امداد فلسطینیوں کو بھیجی جا رہی ہے جو پانچ ماہ سے جاری جنگ کے باعث شدید بھوک کا شکار ہیں۔
یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیین نے کہا کہ صدر جو بائیڈن نے قبرص سے سمندر کے راستے غزہ تک امداد پہنچانے کے جس اقدام کا اعلان کیا تھا، اس کا آغاز اتوار تک ہو جائے گا۔
جمعہ کو قبرص میں، قبرصی صدر نیکوس کرسٹوڈولائیڈز کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، وان ڈیر لیین نے کہا کہ امداد کی فراہمی کے لیے یہ راستہ کھلنے کے بہت قریب ہے اور یہ جمعے کو امداد کی ابتدائی لانچ کے ساتھ اتوار کو، اور یا شاید اس سے بھی پہلے ہفتے کے روز فعال ہو جائے گا۔
کانگریس سے اپنے سالانہ اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں، صدر بائیڈن نے کہا تھاکہ امریکی فوج بحیرہ روم میں غزہ کے ساحل پر ایک عارضی بندرگاہ بنانے کے لیے ہنگامی مشن کی قیادت کرے گی جہاں خوراک، پینے کا پانی، ادویات اور عارضی پناہ گاہوں کی بڑی رسد وصول کی جا سکے گی۔
جمعہ کو یورپی کمیشن، جرمنی، یونان، اٹلی، ہالینڈ، جمہوریہ قبرص، متحدہ عرب امارات، برطانیہ اور امریکہ کی طرف سے جاری کیے جانے والے مشترکہ بیان میں راہداری کھولنے کے منصوبوں کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بحری گزرگاہ غزہ میں تمام ممکنہ راستوں سے انسانی امداد اور تجارتی اشیاء کی فراہمی کو بڑھانے کے لیے ایک مستقل کوشش کا حصہ بن سکتی ہے اور یہ ضروری بھی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم زمینی راستوں سے رسد کی فراہمی بڑھانے کے لیے اسرائیل کے ساتھ کام کریں گے، اور اس پر زور دیں گے کہ وہ مزید راستوں کی سہولت فراہم کرے اور مزید لوگوں تک مزید امداد پہنچانے کے لیے اضافی سرحدی راستے کھولے۔
جمعرات کو اس سلسلے میں ہونے والی ایک بریفنگ میں، انتظامیہ کے ایک سینئر عہدے دار نے صحافیوں کو بتایا کہ اس عارضی بندرگاہ کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ روزانہ امداد اتارنے اور لوڈ کرنے کے لیے اضافی ٹرکوں کی گنجائش فراہم کرے گی۔ امداد کی ابتدائی کھیپ قبرص کے راستے امریکی فوج ، اس کے شراکت داروں اور اتحادیوں کے تعاون سے بھیجی جائے گی۔
عہدے دار نے کہا کہ امریکہ علاقے کی سر زمین پر حفاظتی ضروریات کے لیے اسرائیلیوں کے ساتھ رابطہ کرے گا اور غزہ میں امداد کی تقسیم کے لیے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
عہدے دار کا کہنا تھا کہ اس کاروائی کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد میں کئی ہفتے لگیں گے۔ اور اس مشن کی تکمیل کے لیے جن فورسز کی ضرورت ہو گی وہ یا تو پہلے ہی خطے میں موجود ہیں یا جلد ہی ان کی وہاں منتقلی شروع ہو جائے گی۔
امریکی عہدے دار نے بتایا کہ غزہ میں امریکی فوج کی موجودگی نہیں ہو گی اور اس کے بجائے، امریکی فوج ساحل کے قریب تنصیبات کے قیام کے لیے اپنی منفرد صلاحیتیں بروئے کار لائے گی۔
(اس رپورٹ کے لیے رائٹرز, اے پی اور اے ایف پی سے معلومات لی گئیں ہیں)
فورم