طبی ماہرین نے ایک نئی تحقیق کے نتیجے میں بتایا ہے کہ عارضہٴقلب کے حوالے سے مرد اور خواتین میں مرض کی بعض کیفیات ایک دوسرے سے قطعی طور پر مختلف ہوتی ہیں، اور یہ کہ یہ بیماریاں دونوں پر مختلف طرح سے اثرانداز ہوتی ہیں۔
اطالوی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنس کی بنیاد پر جن بیماریوں کے بارے میں ثبوت اکھٹے کیے گئےہیں ان میں دل کے امراض، سرطان، جگر کی بیماریاں، آسٹیوپروسس
(ہڈیوں کا کمزور ہونا) شامل ہے، جو مرد اور خواتین میں بالکل مختلف طرح سے حملہ آور ہوتی ہیں۔ جبکہ، ان بیماریوں کےعلاج میں استعمال ہونے والی ادویات اور ان کے اثرات کو بھی تحقیق میں شامل کیا گیا ہے۔
اٹلی کے 'پاجوا یونیورسٹی اسپتال' میں کی جانے والی تحقیق کو لگ بھگ 40 برس کے عرصے میں مکمل کیا گیا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق، دل کے دورے کو عام طور پر مردوں کی بیماری تصور کیا جاتا ہے جس کی علامات سینے میں درد اور بائیں کندھے میں درد کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ لیکن، خواتین میں دل کے عارضےکی علامات مردوں سے بالکل مختلف پائی گئی ہیں، جن میں پیٹ کا شدید درد اور لگاتار متلی کی کیفیت ہوتی ہے۔
تحقیق کی سربراہ، جیونا لاباجیو کا کہنا ہے کہ چونکہ خواتین میں دل کے عارضے کی علامات مختلف ہوتی ہیں اس لیے اکثر ان کا صحیح علاج نہیں کیا جاتا۔
ان کے بقول، 'خواتین میں دل کا دورہ پیچیدہ اور شدید نوعیت کا ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ قے اور پیٹ کے درد کی شکایت لے کر ہسپتال جاتی ہیں تو ان کی کیفیت کو سرسری طور پر لیا جاتا ہے اور انھیں بر وقت مرض کی شخیص کے لیے'ای سی جی' یا 'کورونری اینجیوگرافی' کے مراحل سے نہیں گزارا جاتا، جس کی انہیں اشد ضرورت ہوتی ہے۔'
'دا جرنل آف کلینکل کیمسٹری اینڈ لیبارٹری میڈیسن' میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ خواتین میں آنتوں کے سرطان میں مبتلا ہونے کا خطرہ ان کی بڑھتی عمر کے ساتھ بڑھتا ہے۔ لیکن، یہی مرض مردوں کے لیے ہر عمر میں خطرہ ہے۔
اسی طرح، ٹیومر (کینسرکی گلٹی) خواتین کےجن جسمانی اعضا کو متاثر کرتی ہے وہ مردوں سے مختلف ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ٹیومر کی مریض خواتین میں مردوں کی نسبت کیمیائی ادویات زیادہ موثر ثابت ہوتی ہیں، جبکہ، سرطان کی مختلف اقسام میں کیموتھراپی کا نتیجہ بھی دونوں میں مختلف پایا جاتا ہے۔
محقیقین کی رائے میں جگر کے امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ خواتین میں مردوں کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے خاص طور پر خواتین میں ان کے ہارمونز کی وجہ سے دائمی بیماری 'ہیپاٹائٹس سی' کا خطرہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ معالجین کئی بیماریوں کو خواتین سے منسوب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مردوں کی کمر یا گھٹنے کی تکلیف کا علاج آسٹیو پروسس کی ادویات سے نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے مردوں میں ہڈیوں کے فریکچر کی شکایت عام پائی جاتی ہے۔ جبکہ، آسٹیو پروسس کا مرض خواتین میں عام پایا جاتا ہے اس مرض کا شکار زیادہ تر عمر رسیدہ خواتین بنتی ہیں جن کی ہڈیاں پہلے سے ہی کمزور پڑ چکی ہوتی ہیں۔
ماہرین نے بتایا ہے کہ مرد اور خواتین میں کسی مرض کی نوعیت کا مختلف ہونے میں ان کی جسمانی بناوٹ بھی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔
طبی ماہرین نےمعالجین سے گزارش کی ہے کہ علاج کو محفوظ اور موٴثر بنانے کے لیے دواؤں کی مقدار اور استعمال کے دورانیہ کا تعین کرنے سے پہلے جنس کے فرق کو دھیان میں رکھنا چاہیے؛ جبکہ ان کا کہنا ہے کہ، صدیاں گزرنے کے بعد بھی میڈیکل سائنس کی دنیا میں جنس کی بنیاد پر بیماریوں کے بارے میں بہت کم آگاہی حاصل کی گئی ہے۔ تحقیق میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ جنس کی بنیاد پرمرض کی مختلف علامات، مختلف ذہنی اور جسمانی کیفیات اور ان کے روک تھام سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اطالوی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنس کی بنیاد پر جن بیماریوں کے بارے میں ثبوت اکھٹے کیے گئےہیں ان میں دل کے امراض، سرطان، جگر کی بیماریاں، آسٹیوپروسس
(ہڈیوں کا کمزور ہونا) شامل ہے، جو مرد اور خواتین میں بالکل مختلف طرح سے حملہ آور ہوتی ہیں۔ جبکہ، ان بیماریوں کےعلاج میں استعمال ہونے والی ادویات اور ان کے اثرات کو بھی تحقیق میں شامل کیا گیا ہے۔
اٹلی کے 'پاجوا یونیورسٹی اسپتال' میں کی جانے والی تحقیق کو لگ بھگ 40 برس کے عرصے میں مکمل کیا گیا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق، دل کے دورے کو عام طور پر مردوں کی بیماری تصور کیا جاتا ہے جس کی علامات سینے میں درد اور بائیں کندھے میں درد کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ لیکن، خواتین میں دل کے عارضےکی علامات مردوں سے بالکل مختلف پائی گئی ہیں، جن میں پیٹ کا شدید درد اور لگاتار متلی کی کیفیت ہوتی ہے۔
تحقیق کی سربراہ، جیونا لاباجیو کا کہنا ہے کہ چونکہ خواتین میں دل کے عارضے کی علامات مختلف ہوتی ہیں اس لیے اکثر ان کا صحیح علاج نہیں کیا جاتا۔
ان کے بقول، 'خواتین میں دل کا دورہ پیچیدہ اور شدید نوعیت کا ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ قے اور پیٹ کے درد کی شکایت لے کر ہسپتال جاتی ہیں تو ان کی کیفیت کو سرسری طور پر لیا جاتا ہے اور انھیں بر وقت مرض کی شخیص کے لیے'ای سی جی' یا 'کورونری اینجیوگرافی' کے مراحل سے نہیں گزارا جاتا، جس کی انہیں اشد ضرورت ہوتی ہے۔'
'دا جرنل آف کلینکل کیمسٹری اینڈ لیبارٹری میڈیسن' میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ خواتین میں آنتوں کے سرطان میں مبتلا ہونے کا خطرہ ان کی بڑھتی عمر کے ساتھ بڑھتا ہے۔ لیکن، یہی مرض مردوں کے لیے ہر عمر میں خطرہ ہے۔
اسی طرح، ٹیومر (کینسرکی گلٹی) خواتین کےجن جسمانی اعضا کو متاثر کرتی ہے وہ مردوں سے مختلف ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ٹیومر کی مریض خواتین میں مردوں کی نسبت کیمیائی ادویات زیادہ موثر ثابت ہوتی ہیں، جبکہ، سرطان کی مختلف اقسام میں کیموتھراپی کا نتیجہ بھی دونوں میں مختلف پایا جاتا ہے۔
محقیقین کی رائے میں جگر کے امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ خواتین میں مردوں کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے خاص طور پر خواتین میں ان کے ہارمونز کی وجہ سے دائمی بیماری 'ہیپاٹائٹس سی' کا خطرہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ معالجین کئی بیماریوں کو خواتین سے منسوب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مردوں کی کمر یا گھٹنے کی تکلیف کا علاج آسٹیو پروسس کی ادویات سے نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے مردوں میں ہڈیوں کے فریکچر کی شکایت عام پائی جاتی ہے۔ جبکہ، آسٹیو پروسس کا مرض خواتین میں عام پایا جاتا ہے اس مرض کا شکار زیادہ تر عمر رسیدہ خواتین بنتی ہیں جن کی ہڈیاں پہلے سے ہی کمزور پڑ چکی ہوتی ہیں۔
ماہرین نے بتایا ہے کہ مرد اور خواتین میں کسی مرض کی نوعیت کا مختلف ہونے میں ان کی جسمانی بناوٹ بھی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔
طبی ماہرین نےمعالجین سے گزارش کی ہے کہ علاج کو محفوظ اور موٴثر بنانے کے لیے دواؤں کی مقدار اور استعمال کے دورانیہ کا تعین کرنے سے پہلے جنس کے فرق کو دھیان میں رکھنا چاہیے؛ جبکہ ان کا کہنا ہے کہ، صدیاں گزرنے کے بعد بھی میڈیکل سائنس کی دنیا میں جنس کی بنیاد پر بیماریوں کے بارے میں بہت کم آگاہی حاصل کی گئی ہے۔ تحقیق میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ جنس کی بنیاد پرمرض کی مختلف علامات، مختلف ذہنی اور جسمانی کیفیات اور ان کے روک تھام سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔