جرمنی کی پولیس نے جمعہ کو دو بھائیوں کو گرفتار کیا ہے جو مبینہ طور پر نارتھ رائن ویسٹ فیلیا ریاست کے تجارتی مرکز پر ایک حملے کی منصوبہ بندی میں شامل تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں بھائیوں کا تعلق کوسوو سے ہے اور ان کی عمریں 28 اور 31 سال ہیں اور انہیں خفیہ اطلاعات کے بنیاد پر کی گئی ایک کارروائی میں گرفتار کیا گیا ہے۔
تاہم فوری طور پر یہ واضح نہیں ہے کہ کیا ان کا برلن میں کرسمس مارکیٹ پر ہونے والے ٹرک حملے سے بھی کوئی تعلق ہے یا نہیں۔
برلن کی کرسمس مارکیٹ پر پیر کو ایک ٹرک حملے میں 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے، یہ مارکیٹ اب دوبارہ کھل گئی ہے اور وہاں بھاری تعداد میں پولیس اہلکاروں کو تعینات کرنے کے علاوہ اس کے اردگرد کنکریٹ کی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔
اس مارکیٹ کے منتظمین نے موسیقی اور چمکتی دھمکتی روشنیوں کے بغیر مارکیٹ کھولنا کا فیصلہ کیا ہے اور اس جگہ جہاں حملہ ہوا وہاں ہلاک ہونے والے کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے پھول رکھنے کے ساتھ ساتھ شمعیں روشن کیں۔
دوسری طرف یورپ بھر میں حکام تیونس کے 24 سالہ انس عامری کی تلاش جاری رکھے ہوے ہیں جس کے بارے میں جرمن عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اسے چھ ماہ قبل ملک بدر کر دیا جانا چاہیئے تھا۔
برلن حملے کے ملزم انس عامری کی جرمنی میں پناہ کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی لیکن وہ اس وقت سے زیر نگرانی تھا جب پولیس کو یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ کسی ممکنہ حملے کے لیے ہتھیار خریدنے کی کوشش کر سکتا ہے، تاہم بعد ازاں انس سے متعلق چھان بین ستمر میں ختم کر دی گئی تھی۔
جرمنی کے وزیر داخلہ تھامس میزیری نے جمعرات کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ اس بات کا "بہت زیادہ امکان ہے" کہ انس عامری ہی حملے کا ذمہ دار ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ہم آج بتا سکتے ہیں کہ ہمارے پاس نئی معلومات ہیں جس کی بنا پر اس بات کا قومی امکان ہے کہ مشتبہ شخص ہی نے اس (حملے کا ) ارتکاب کیا۔"
جرمن عہدیداروں نے جعمرات کو اس بات کی تصدیق کی کہ پولیس کو انس عامری کی شناختی دستاویزات ٹرک کے اندر سے ملی تھیں۔
اگرچہ اس کی جرمنی میں پناہ کی درخواست چھ ماہ قبل مسترد کر دی گئی تھیں تاہم اس کی دستاویزات میں کسی مسئلہ کی وجہ سے اسے تیونس واپس نہیں بھیجا گیا تھا۔
ان انکشافات کی وجہ سے جرمنی میں یہ سوالات ایک بار پھر اٹھائے جا رہے ہیں کہ یہ ملک ہزاروں کی تعداد میں ان افراد کی چھان بین کیسے کرتا ہے جو پناہ کی تلاش میں جرمنی میں داخل ہوئے۔
اس حملے کے ایک دن کے بعد جرمنی کی چانسلر اینگلا مرکل نے کہا تھا کہ یہ برداشت نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کوئی پناہ کا متلاشی اس کا ذمہ دار ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’’یہ ان بہت سے لوگوں کے لیے نا خوشگوار امر ہے جو ان پناہ گزینوں کی ہر روز مدد کرتے ہیں۔"
دوسری طرف انس عامری کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ وہ یہ جان کر حیران ہو گئے کہ اس حملے کا سب سے زیادہ شبہ اسی پر کیا جا رہا ہے۔ اس کے بھائی نے انس پر زور دیا کہ وہ اپنے آپ کو حکام کے حوالے کر دیے۔
عبدالقادر عامری نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کو بتایا کہ "میں اسے کہتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو پولس کے حوالے کر دے۔"
" اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ (اس حملے میں ) ملوث تھا تو ہم اس سے قطع تعلق کر لیں گے۔"
عبدالقادر عامری نے کہا کہ انس عامری نے یورپ جانے کے لیے 2011 میں تیونس چھوڑ دیا تھا اور شاید وہ اٹلی کے جیل میں شدت پسندی کی طرف مائل ہو گیا ہو جہاں اس نے مہاجرین کی ایک پناہ گاہ کو نذر آتش کرنے کے جرم میں تین سال کی قید کی سزا کاٹی۔