کراچی —
کہا جاتا ہے کہ ایک پڑھی لکھی لڑکی ایک پڑھے لکھے معاشرے کو جنم دیتی ہے۔
ِاِسی مقصد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، کراچی میں لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے دنیا بھر کے متعدد ممالک سے تعلق رکھنےوالی 9 لڑکیوں کی تعلیم اور اس سے جڑے مسائل کو ایک ’فلم اسکریننگ‘ کے ذریعے بڑے پردے پر پیش کیا گیا۔
'گرل رائزنگ پاکستان' لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے جاری مہم کے تحت، دنیا کے 9 ممالک کی لڑکیوں کے تعلیمی مسائل اور تعلیم کی جستجو کو فلم کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ اس فلمی رپورٹ میں دکھایا گیا ہے کہ پاکستان کے علاوہ بھی ایسے ممالک ہیں جہاں کی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فلم میں ویڈلے نامی افریقی لڑکی کی کہانی دکھائی گئی جو زلزلے جیسے سانحے کا شکار ہو کر کسمپرسی کی زنگی گزارنے لگتی ہے۔ اس کی والدہ، اسکول کی فیس نہیں دے سکتی اور اسے گھر کے کاموں میں لگا دیتی ہیں۔ مگر، جب وہ دوسرے بچوں کو اسکول جاتا دیکھتی ہے تو اسکا بھی دل کرتا ہے کہ وہ اسکول جائے۔ وہ کتابیں اٹھاتی ہے اور اسکول میں جاکر بیٹھنے لگتی ہے۔
جب اُس کی استانی اُس سے فیس کا مطالبہ کرتی ہیں، تو ویڈلے کہتی ہے آپ جتنی بار منع کریں گی میں روز یہاں آؤں گی اور پڑھوں گی۔ اس کی پڑھائی کی ضد اس کی استانی کو اسے مفت تعلیم دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اسی طرح، بھارت کے شہر کولکتہ کی ایک لڑکی کی کہانی ہے۔ جسے اس کے ماں باپ محنت مزدوری کیلئے گھروں میں کام کرنے پر لگا دیتے ہیں۔ اور اسکول کے بجائے گھروں میں کام کرکے 'چائلڈ لیبر' کی زندگی گزار رہی ہوتی ہے،
تب ایک غیر سرکاری تنظیم ایسی لڑکیوں کو مفت تعلیم دینے کی ٹھان لیتی ہے۔ اور اس طرح چائلڈ لیبر میں ملوث لڑکیاں اپنا تعلیمی سفر شروع کرتی ہیں۔
اسی طرح، ایتھوپیا کی ایک لڑکی کی کہانی ہے، جس کے ماں باپ تین لڑکیوں کے ساتھ گاوٴں سے شہر میں آکر ایک جھونپڑی میں رہبے لگتے ہیں۔ مگر ان کی تینوں لڑکیاں تعلیم کیلئے اسکول جاتی ہیں۔ پھر ایک وقت اتا ہے کہ غیر قانونی جھونپڑیوں کو پولیس کی جانب سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ تو لڑکی کا والد واپس گاوں جانے کا کہتا ہے۔ مگر، والدہ کہتی ہے کہ ہمیں اپنی لڑکی کو پڑھانا ہے۔ اور اس کے لیے جیسے تیسے شہر ہی میں رہنا ہوگا۔ یوں وہ لڑکیوں کی تعلیم جاری رکھنے کیلئے دوبارہ سڑک پر ہی اپنا آشیانہ بناتے ہیں۔
فلم کے ایک حصے میں افغانستان کی ایک لڑکی کی کہانی بیان کی گئی جہاں چند ہزار روپے کی خاطر لڑکیوں کو شادی کے نام پر بڑی عمر کے مردوں کے ساتھ بیاہ کر فروخت کر دیا جاتا ہے اور یہ بچیاں پڑھائی اور کھیلنے کی عمر میں ماں بن جاتی ہیں اور اپنے جیسی ایک اور بچی کو جنم دیتی ہیں۔
اس کہانی کا مقصد معاشرے میں ہونے والی برائیوں کیخلاف آواز اٹھانا ہے۔ اسی طرح کی دیگر لڑکیوں کی عکاسی کرتی فلم پیش کی گئی۔
’گرل رائزنگ پاکستان‘ کی آرگنائزر، روحی عبداللہ نے ایک خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ’میں نے پہلی بار یہ ڈاکیومینٹری فلم امریکہ میں دیکھی۔ تو ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اسے پاکستان میں بھی لڑکیوں کی تعلیم کیلئے آگاہی مہم کے حوالے سے استعمال کیا جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ کوئی کمرشل مصالحہ فلم نہیں بلکہ اسمیں معاشرے کے لوگوں کیلئے لڑکیوں کی تعلیم کیلئے ایک طاقتور پیغام ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’پاکستان سے قبل یہ ’انسپائریشن‘ قسم کی فلم بہت سے ممالک میں دکھائی جا چکی ہے، جبکہ پاکستان میں اسے مزید پھیلانے کیلئے کوششیں جاری رکھی گئی ہیں‘۔
مہم کے ایک اور عہدیدار نوید سراج نے بتایا کہ ’افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اسکول کے باہر بچوں کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں 'دوسرے نمبر' پر ہے۔ اس مہم کا مقصد تعلیم کو عام کرکے وسائل کی فراہمی پر زور دینا ہے۔ پاکستان میں اس مہم کی شروعات کے بعد ہم اسے مزید وسعت دینے کا سوچ رہے ہیں کہ اسے ایسے لوگوں کو دکھایا جائے جو لڑکیوں کی تعلیم کو اہمیت ہی نہیں دیتے‘۔
دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق 'گرل رائزنگ' نامی اس بین الاقوامی مہم کا آغاز پاکستان میں بھی رواں مہینے کیا گیا، جو بڑے شہر لاہور، اسلام آباد اور اب کراچی کے عوام کیلئے پروگرام منعقد کرکے تعلیم سے آگہی کی کوشش کے طور پر پیش کیا گیا۔
اسے اکیڈمی ایوارڈ یافتہ، رچرڈ روبنسن کی ہدایات میں تیار کیا گیا۔ یہ مہم دنیا کے دیگر ممالک کی لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے مسائل اور لڑکیوں کی تعلیم کی معاشرتی اہمیت اور عالمی اہیمیت کو اجاگر کررہی ہے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں67 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے ان بچوں میں 56 فیصد شرح لڑکیاں ہیں جو اسکول نہیں جاتیں اور تعلیم کے حق سے محروم ہیں ۔
ِاِسی مقصد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، کراچی میں لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے دنیا بھر کے متعدد ممالک سے تعلق رکھنےوالی 9 لڑکیوں کی تعلیم اور اس سے جڑے مسائل کو ایک ’فلم اسکریننگ‘ کے ذریعے بڑے پردے پر پیش کیا گیا۔
'گرل رائزنگ پاکستان' لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے جاری مہم کے تحت، دنیا کے 9 ممالک کی لڑکیوں کے تعلیمی مسائل اور تعلیم کی جستجو کو فلم کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ اس فلمی رپورٹ میں دکھایا گیا ہے کہ پاکستان کے علاوہ بھی ایسے ممالک ہیں جہاں کی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فلم میں ویڈلے نامی افریقی لڑکی کی کہانی دکھائی گئی جو زلزلے جیسے سانحے کا شکار ہو کر کسمپرسی کی زنگی گزارنے لگتی ہے۔ اس کی والدہ، اسکول کی فیس نہیں دے سکتی اور اسے گھر کے کاموں میں لگا دیتی ہیں۔ مگر، جب وہ دوسرے بچوں کو اسکول جاتا دیکھتی ہے تو اسکا بھی دل کرتا ہے کہ وہ اسکول جائے۔ وہ کتابیں اٹھاتی ہے اور اسکول میں جاکر بیٹھنے لگتی ہے۔
جب اُس کی استانی اُس سے فیس کا مطالبہ کرتی ہیں، تو ویڈلے کہتی ہے آپ جتنی بار منع کریں گی میں روز یہاں آؤں گی اور پڑھوں گی۔ اس کی پڑھائی کی ضد اس کی استانی کو اسے مفت تعلیم دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اسی طرح، بھارت کے شہر کولکتہ کی ایک لڑکی کی کہانی ہے۔ جسے اس کے ماں باپ محنت مزدوری کیلئے گھروں میں کام کرنے پر لگا دیتے ہیں۔ اور اسکول کے بجائے گھروں میں کام کرکے 'چائلڈ لیبر' کی زندگی گزار رہی ہوتی ہے،
تب ایک غیر سرکاری تنظیم ایسی لڑکیوں کو مفت تعلیم دینے کی ٹھان لیتی ہے۔ اور اس طرح چائلڈ لیبر میں ملوث لڑکیاں اپنا تعلیمی سفر شروع کرتی ہیں۔
اسی طرح، ایتھوپیا کی ایک لڑکی کی کہانی ہے، جس کے ماں باپ تین لڑکیوں کے ساتھ گاوٴں سے شہر میں آکر ایک جھونپڑی میں رہبے لگتے ہیں۔ مگر ان کی تینوں لڑکیاں تعلیم کیلئے اسکول جاتی ہیں۔ پھر ایک وقت اتا ہے کہ غیر قانونی جھونپڑیوں کو پولیس کی جانب سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ تو لڑکی کا والد واپس گاوں جانے کا کہتا ہے۔ مگر، والدہ کہتی ہے کہ ہمیں اپنی لڑکی کو پڑھانا ہے۔ اور اس کے لیے جیسے تیسے شہر ہی میں رہنا ہوگا۔ یوں وہ لڑکیوں کی تعلیم جاری رکھنے کیلئے دوبارہ سڑک پر ہی اپنا آشیانہ بناتے ہیں۔
فلم کے ایک حصے میں افغانستان کی ایک لڑکی کی کہانی بیان کی گئی جہاں چند ہزار روپے کی خاطر لڑکیوں کو شادی کے نام پر بڑی عمر کے مردوں کے ساتھ بیاہ کر فروخت کر دیا جاتا ہے اور یہ بچیاں پڑھائی اور کھیلنے کی عمر میں ماں بن جاتی ہیں اور اپنے جیسی ایک اور بچی کو جنم دیتی ہیں۔
اس کہانی کا مقصد معاشرے میں ہونے والی برائیوں کیخلاف آواز اٹھانا ہے۔ اسی طرح کی دیگر لڑکیوں کی عکاسی کرتی فلم پیش کی گئی۔
’گرل رائزنگ پاکستان‘ کی آرگنائزر، روحی عبداللہ نے ایک خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ’میں نے پہلی بار یہ ڈاکیومینٹری فلم امریکہ میں دیکھی۔ تو ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اسے پاکستان میں بھی لڑکیوں کی تعلیم کیلئے آگاہی مہم کے حوالے سے استعمال کیا جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ کوئی کمرشل مصالحہ فلم نہیں بلکہ اسمیں معاشرے کے لوگوں کیلئے لڑکیوں کی تعلیم کیلئے ایک طاقتور پیغام ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’پاکستان سے قبل یہ ’انسپائریشن‘ قسم کی فلم بہت سے ممالک میں دکھائی جا چکی ہے، جبکہ پاکستان میں اسے مزید پھیلانے کیلئے کوششیں جاری رکھی گئی ہیں‘۔
مہم کے ایک اور عہدیدار نوید سراج نے بتایا کہ ’افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اسکول کے باہر بچوں کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں 'دوسرے نمبر' پر ہے۔ اس مہم کا مقصد تعلیم کو عام کرکے وسائل کی فراہمی پر زور دینا ہے۔ پاکستان میں اس مہم کی شروعات کے بعد ہم اسے مزید وسعت دینے کا سوچ رہے ہیں کہ اسے ایسے لوگوں کو دکھایا جائے جو لڑکیوں کی تعلیم کو اہمیت ہی نہیں دیتے‘۔
دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق 'گرل رائزنگ' نامی اس بین الاقوامی مہم کا آغاز پاکستان میں بھی رواں مہینے کیا گیا، جو بڑے شہر لاہور، اسلام آباد اور اب کراچی کے عوام کیلئے پروگرام منعقد کرکے تعلیم سے آگہی کی کوشش کے طور پر پیش کیا گیا۔
اسے اکیڈمی ایوارڈ یافتہ، رچرڈ روبنسن کی ہدایات میں تیار کیا گیا۔ یہ مہم دنیا کے دیگر ممالک کی لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے مسائل اور لڑکیوں کی تعلیم کی معاشرتی اہمیت اور عالمی اہیمیت کو اجاگر کررہی ہے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں67 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے ان بچوں میں 56 فیصد شرح لڑکیاں ہیں جو اسکول نہیں جاتیں اور تعلیم کے حق سے محروم ہیں ۔