افغانستان کے صوبہ پکتیا میں چند روز قبل لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکول کھولے جانے کے باوجود ہفتے کو ایک بار پھر طالبات کو اسکولوں میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ اسکولوں میں داخلے سے روکنے پر درجنوں طالبات نے گردیز میں احتجاجی ریلی نکالی۔
وائس آف امریکہ افغان سروس کے مطابق طالبات نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ لڑکیوں کے اسکول دوبارہ بند نہ کیے جائیں۔
صوبہ پکتیا کے شعبہ اطلاعات و نشریات کے ایک اہلکار مولوی خلقیار احمدزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ اسکول بند نہیں کیے گئے۔ اُنہوں نے گردیز میں طالبات کے احتجاجی مظاہرے کے حوالے سے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔
کئی طالبات کے والدین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب ہفتے کو اُن کی بچیاں اسکول پہنچیں تو اُنہیں داخلے سے روک دیا گیا اور گھروں کو واپس جانے کی ہدایت کی گئی۔
افغان نشریاتی ادارے 'طلوع'نیوز نے بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں درجنوں بچیوں کو گردیز میں ریلی نکالتے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس سے قبل رواں ماہ کے آغاز پر پکتیا میں چھٹی جماعت سے بارہویں جماعت تک لڑکیوں کے اسکول قبائلی عمائدین اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے بعد کھول دیے گئے تھے۔
اس سے قبل صرف چھٹی جماعت تک کی لڑکیاں ہی اسکول جا سکتی تھیں اور ساتویں سے بارہویں جماعت تک کی لڑکیوں کے اسکول بند تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ایک طالبہ عابدہ نے بتایا کہ یہ ایک سال ان پر کیسے گزرا وہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتیں۔ ایک ایک دن سال کی مانند گزرتا تھا، وہ بہت مشکل وقت تھا۔
عابدہ کے والد فضل الدین جلالزئی کا تعلق صوبہ پکتیا کے صدرمقام گردیز سے ہے۔ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک تاجر ہیں۔ ان کی چار بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ بچوں کی پڑھائی میں کوئی تفریق نہیں کرتے۔
ان کے بقول طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبات کے اسکولوں کی بندش یقیناً ایک درد ناک مسئلہ تھا۔ اس کو حل کرنے کے حوالے سے کافی کوششیں جاری تھیں۔
تعلیم کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فضل الدین جلالزئی نے مزید بتایا کہ انہوں نے ایسے بے شمار گھرانے دیکھے ہیں جنہیں تعلیم یافتہ خواتین نہ ہونے کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کے مطابق اسکولوں کی بندش پر علاقے میں کافی بے چینی پائی جاتی تھی۔ لہذٰا اس معاملے کو ہر سطح پر اٹھایا گیا۔
فضل الدین جلالزئی کے مطابق عمائدین کے مطالبات میں حالیہ زلزلے اور سیلاب کے واقعات کے بعد شدت آئی کیوں کہ خواتین نرسوں اور لیڈی ڈاکٹروں کی کمی کے باعث زخمیوں کو دور دراز علاقوں میں منتقل کرنا پڑتا تھا جس کے باعث زیادہ اموات ہوئیں۔ اس لیے عوام نے لڑکیوں کے اسکولوں کے کھولے جانے کے لیے اپنی کوششیں مزید تیز کردیں۔
یاد رہے کہ جون میں آنے والے زلزلے اور پھر سیلاب کے باعث 1500سے زائد افراد ہلاک جب کہ ہزاروں زخمی ہوئے۔
سابقہ ادوار میں بھی صوبہ پکتیا کو تعلیم اور صحتِ عامہ کے حوالے سے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ صدر مقام گردیز کے علاوہ باقی ماندہ اضلاع پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہیں جب کہ ضلع زرمت 20 سالہ جنگ کا مرکز رہا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے صوبہ پکتیا کے شعبہ اطلاعات و نشریات کے ایک اہلکار مولوی خلقیار احمدزئی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بھیجے گئے ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ پکتیا میں لڑکیوں کے تعلیمی ادارے علاقے کے عمائدین اور اسکول کی انتظامیہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد کھولے گئے ہیں۔ اس حوالے سے وزارتِ تعلیم یا مقامی طالبان کی جانب سے کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ اسکول کھولنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ڈالی گئی۔
صوبہ پکتیا میں اسکول کھلنے کی خبریں جب مقامی اور انٹرنیشنل میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنیں تو ملک کے دیگر علاقوں میں بھی عوام نے لڑکیوں کے ساتویں سے بارہویں جماعت کے اسکول کھولنے کا مطالبہ کر دیا۔
تاہم طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں اس بابت علم نہیں ہے کہ اسکول کس کی اجازت پر کھولے گئے ہیں۔ اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔
دوسری جانب عابدہ روزانہ اپنا اسکول یونیفارم اور سفید اسکارف خوشی خوشی استری کرتی ہیں۔ وہ اسکول جانے کے لیے چہرے کو ڈھانپنے کے لیے ماسک کا استعمال کرتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی کلاس میں 70 لڑکیاں ہیں۔ شروع کے چند دن تو کلاس میں ایک دوسری کا حال احوال پوچھنے میں ہی لگ گئے۔ تاہم گھر پر وہ ہوم ورک باقاعدگی سے کرتی ہیں۔
عابدہ کے مطابق افغانستان کی لڑکیان با ہمت ہیں۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ وہ مردوں سے کسی لحاظ سے کم نہیں ہیں۔
ان کے مطابق قبائلی روایات کے پیشِ نظر کوئی بھی شخص اپنی خواتین کو مرد ڈاکٹروں کے پاس لے جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مستقبل میں ڈاکٹر بنیں گی۔ تاکہ اس پسماندہ علاقے کی تقدیر بدلنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔