امریکہ میں پاکستان کے سفیر مسعود خان نے کہا ہے کہ جن بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو پاکستان میں کام کرنےکی اجازت نہیں ہے، انہیں چاہیے کہ وہ امداد پاکستان کے حکام کو دیں، اس طرح ان کی امداد سیلاب زدگان تک پہنچا دی جائے گی۔
پاکستان میں کام کرنے پر پابندی کا شکار بین الاقوامی تنظیموں کو ملک میں آنے کی اجازت دینے کے بڑھتے ہوئے مطالبات سے متعلق انہوں نے وائس آف امریکہ کے ساتھ فیس بک لائیو میں انہوں نے کہا:
’’پاکستان کی مدد کرنا مشکل نہیں ہے، آپ ہمیں امداد دیجئے ہم اسے پاکستان پہنچا کر دکھائیں گے۔ ‘‘
خیال رہے کہ پاکستان نے لگ بھگ ایک دہائی پہلے بین الاقوامی این جی اوز پر ملکی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں کا الزام لگاتے ہوئے کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔
سن 2018 تک حکومت پاکستان نے سخت قوانین متعارف کرواتے ہوئے بعض فلاحی اداروں کو سرکاری سطح پر ملک چھوڑنے کا کہہ دیا تھا۔ ان میں ایک بڑی این جی او سیو دا چلڈرن بھی شامل تھی۔
حکومت پاکستان نے الزام لگایا تھا کہ اس کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں پکڑوانے میں سی آئی آے کی مدد کی تھی۔ تنظیم ان الزامات کی تردید کر چکی ہے۔ ان میں سے بعض وہ تنظیمیں بھی ہیں جنہوں نے 2005 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب میں پاکستان میں متاثرین کی مدد کی تھی۔
سیلاب کے حوالے سے مسعود خان نے بتایا کہ پاکستان میں سیلاب کے شروع کے دنوں میں بین الاقوامی برادری نے توجہ نہیں دی تاہم گزشتہ چند ہفتوں میں تباہ کاری کا احساس بڑھا ہے۔
’’ جون اور جولائی میں جب بارشیں شروع ہوئیں تو اس وقت دنیا کی توجہ پاکستان پر نہیں تھی لیکن اب ہم مدد کے لیے شکر گزار ہیں‘‘۔
پاکستان کے سفیر نے کہا کہ قدرتی آفات آنے کی صورت میں بین الاقوامی برادری کو مدد کرنے کے مرحلے میں وقت لگ جاتا ہے، اس لیے اس نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان اتنی بڑی آفت سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر تیار نہیں تھا مگر پاکستان پر یہ آفت موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی آئی۔
سفیر نے نوٹ کیا کہ پاکستان ایک فیصد سے بھی کم کاربن کا اخراج کرنے والے ملکوں میں شامل ہے جب کہ دنیا میں اس اخراج کی وجہ سے قدرتی آفات کے خطرات کا سامنے کرنے والے ملکوں کی فہرست میں پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے۔
اس سے قبل پاکستانی سفیر نے جمعے کو واشنگٹن کے نیشنل پریس کلب میں صحافیوں کو پاکستان کو سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی تفصیل بیان کی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا مزید کہنا تھا امریکہ کی جانب سے ابتدائی طور پر 30 ملین ڈالرز کی امداد سیلاب زدگان کے لیے دی جا رہی ہے تاہم مزید امداد بھی جاری کی جائے گی۔ پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ امریکی امدادی ادارے یو ایس اے آئی ڈی کی ایک ٹیم جمعے کو ہی پاکستان پہنچی ہے تاکہ ملک میں سیلاب سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگایا جا سکے اور مزید امداد کی ترسیل ممکن ہو پائے۔
انہوں نے کہا پاکستان میں سیلاب زگان کے لیے ورلڈ بینک نے تین سو ملین ڈالرز کی رقم مختص کی ہے جب کہ اس تازہ صورت حال میں عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف میں بھی پاکستان کی مدد کرنے کی سوچ پائی جاتی ہے۔
پاکستانی حکومت کی درخواست پر پہلا یو ایس سی 17 طیارہ جمعے کو ہی گھر بدر ہونے والے پاکستانیوں کے لیے شیلٹر لے کر صوبہ سندھ پہنچا ہے۔ اس سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ کے حکام نے بھی پاکستان میں اعلی حکومتی اہلکاروں سے بات کی۔
پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے امداد سے مدد تو ہوتی ہے لیکن حتمی ذمہ داری پاکستان کی ہے کہ وہ مستقبل میں آنے والی آفات سے نمٹنے کے لیے ملکی تعمیر نو پر توجہ دے۔
امریکی انتظامیہ نے حال ہی میں پاکستان کی فوجی امداد بحال کرتے ہوئے ایف سولہ جنگی طیاروں کی مرمت کی مد میں پاکستان کو چارسو پچاس ملین ڈالرز کی رقم دینے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ پاکستانی سفیر نے مطالبہ کیا کہ ملک اور خطے کی سلامتی کے لیے امریکہ، پاکستان کو مزید دفاعی ٹیکنالوجی دے۔
اس سوال کے جواب پر کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں کی پیداوار پر پیسے لگا سکتا ہے مگر قدرتی آفات سے نمٹنے کے شبعے اور پالیسیوں پر کیوں خرچ نہیں کرتا، مسعود خان نے کہا “یہ ہمارے لیے چیلنج ہے مگر پاکستانی قوم ایسا بھی کر کے دکھائے گی۔”
سفیر نے مزید کہا کہ اس وقت پاکستانیوں کی مدد کے لیے امریکی سول سوسائٹی، کاروباری صنعت کے لوگ متحرک ہیں جب کہ چند امیر افراد نے انفرادی حیثیت میں بھی مالی مدد کی ہے۔ انہوں امریکہ میں بسنے والی پاکستانی برادری کی جانب سے دی جانے والی امداد اور کوششوں کو سراہا۔ پاکستانی سفیر نے کہا کہ پاکستان کو سیلاب کے اثرات سے نمٹنے اور تعمیر نو کے لیے کم سے کم 25 سے 30 ارب ڈالرز کی ضرورت ہو گی۔
پاکستان میں ان سیلابوں سے اب تک 14 سو کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں چار سو سے زیادہ بچے شامل ہیں۔ سیلابی پانی سے فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
اس حوالے سے پاکستانی سفارت کار نے کہا کہ یوکرین میں جاری روس کی جنگ کی وجہ سے گندم کی درآمدات پہلے سے متاثر ہو رہی تھی جب کہ ملک کو اب سیلاب میں بہہ جانے والی فصلوں کی وجہ سے بھی خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔