پاکستان کے زیرِ انتظام علاقے گلگت بلتستان میں نامعلوم افراد نے لڑکیوں کا اسکول نذرِ آتش کر دیا ہے۔ وزیرِ اعلٰی گلگت بلتستان اور چیف سیکریٹری نے واقعے کا نوٹس لے کر ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا ہے۔
وزیرِ اعلٰی نے اسکول کو فوری طور پر بحال کر کے تدریسی عمل فوری طور پر شروع کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق ضلع دیا میر میں بعض نامعلوم افراد نے پیر اور منگل کی درمیان شب لڑکیوں کے ایک اسکول کوآگ لگا کر تباہ کر دیا۔
اگرچہ کسی بھی فرد یا گروہ نے تاحال اسکول پر ہونے والے حملے کی ذمہ اری قبول نہیں کیا ہے لیکن حکام اسے مبینہ طور پر دہشت گردی کی کارروائی قراردے رہے ہیں۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق اسکول رات کو بند ہونے کی وجہ سے کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا ہے ۔
گلگت بلتستان میں اسکول کو نذرِآتش کرنے کی یہ پہلی کارروائی نہیں ہے ماضی میں بھی دیا میر اور اس سے ملحقہ چلاس میں بھی لڑکیوں اور لڑکوں کے اسکولو ں کو بعض شرپسندوں کی طرف سے تباہ کر نے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔
گلگت بلتستان کے مقامی صحافی منظر شگری نے وائس آف امریکہ کو فون پر بتایا کہ کہ ضلع دیا میر کے علاقے داریل میں لڑکیوں کے اسکول کو بعض شرپسندوں نے نذر آتش کرنے کے بعد چوکیدار کو اغوا کر لیا جسے بعدازاں چھوڑ دیا گیا۔
اسکول کے چوکیدار حضرت حسین نے پولیس کو بتایا ہے کہ رات ایک بجے کے قریب دو تین نامعلوم نقاب پوش افراد اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ چوکیدار کے بقول ان افراد نے اسے ایک دوسرے علاقے میں لے جا کرچھوڑ دیا اور وہ دوبارہ اسکول واپس آگیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں ملوث افراد کی نشاندہی کے لیے کارروائی شروع کر دی ہے لیکن تاحال پولیس نے کسی مشتبہ فراد کو گرفتار کرنے کی تصدیق نہیں کی ہے۔
نذرِ آتش ہونے والے مڈل اسکول کی تعمیر چند ماہ پہلے ہی مکمل ہوئی تھی اور اس میں عارضی طور پر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ اسکول کی زیر تعلیم طالبات کی تعداد 68 بتائی جاتی ہے۔ اسکول میں د و خواتین اساتذہ اور دو چوکیدار رضا کارانہ طور پر اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔
دوسری جانب گلگت بلتسان کے چیف سیکریٹری محی الدین وانی نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ضلع دیامیر میں چند شرپسند عناصر نے داریل میں واقع گرلز مڈل اسکول کو آگ لگا دی۔
اُنہوں نے واقعے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ شرپسندوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ تعلیم حاصل کرنا لڑکیوں کا حق ہےجو ہمارے مذہب نے بھی دیا ہے اور اس اسکول کی مرمت اور بحالی کا کام ایک ہفتے کے اندر مکمل کر کے اسکول میں درس وتدریس کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا جائے گا۔
ماضی میں بھی دیامیر میں لڑکیوں کے اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا تھا اور فروی 2004 میں حملہ آوروں نے نو اسکولوں کو تباہ کر دیا تھا جن میں سے آٹھ لڑکیوں کے اسکول تھے۔ دسمبر 2011 میں بھی علاقے میں دھماکہ خیز مواد سے دو اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔
اگست 2018 میں دیامیر چلاس کے ایک علاقے میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے 12 سے زائد لڑکیوں کے اسکولوں کو بارودی مواد سے تباہ کردیا تھا۔