پاکستان کی سیاست میں حالیہ عرصے کے دوران کئی اہم شخصیات کی آڈیوز اور ویڈیوز سامنے آنے کا معاملہ موضوعِ بحث رہا ہے۔حال ہی میں سینیٹر اعظم سواتی کی ذاتی ویڈیو انٹرنیٹ پر آنے کے بعد اس حوالے سے بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے۔
ماضی کے برعکس اعظم سواتی کا معاملہ کچھ مختلف اس طرح سے ہے کہ ایک سینیٹر کی خفیہ کیمروں کی مدد سے نجی زندگی کی مبینہ ویڈیو بنا کر اسےسامنے لایا گیا ہے۔
اس سے قبل وزیرِ اعظم شہباز شریف، سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو پر مبنی متعدد آڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اب قانون دانوں کی نجی زندگی بھی محفوظ نہیں رہی؟
مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ نے تحریکِ انصاف کے رہنما سینیٹر اعظم سواتی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے ساتھ پیش آئے واقعے کو خطرناک اور قابلِ تشویش قرار دیا ہے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے معاملے کی تحقیقات کے لیے 14 رکنی خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا پہلا اجلاس منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں طلب کیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ نے کمیٹی کے متعدد اراکین سے رابطہ کیا تو انہوں نے تحقیقات سے قبل معاملے پر بات کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے۔
ان سینیٹرز کا کہنا تھا کہ کمیٹی اراکین نے فیصلہ کیا ہے کہ معاملے کی تحقیقات سے قبل میڈیا سے بات چیت نہیں کی جائے گی۔ البتہ ان کا یہ بتانا تھا کہ منگل کو ہونے والے اجلاس میں کمیٹی اپنے کنوینئر کا انتخاب کرے گی اور تحقیقات کے اپنے دائرہ کار کا بھی تعین کرے گی۔
'ویڈیو اصلی ہے تو اعظم سواتی ایف آئی اے کو درخواست دیں'
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سیل کے سابق سربراہ سجاد مصطفی باجوہ کہتے ہیں کہ ایف آئی اے نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو کی جانچ پڑتال کی ہوگی جو کہ اصل نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر سینیٹر اعظم سواتی سمجھتے ہیں کہ انہیں موصول ہونے والی ویڈیو اصلی ہے تو ایف آئی اے کو اس ویڈیو کے ساتھ درخواست دیں تاکہ اس کا فرانزک کرلیا جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایف آئی اے سافٹ ویئر کی مدد سے ویڈیو کے اصلی یا جعلی ہونے کی رپورٹ دیتا ہے اور اگر ویڈیو اصل ہے تو اس کے بعد مزید کارروائی ہوسکے گی کہ یہ ویڈیو کہاں بنی اور اسے بنانے میں کون ملوث ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ سینیٹر اعظم سواتی نےپانچ نومبر کو لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ اُن کی بیٹی کو نامعلوم نمبر سے اُن کی اور ان کی اہلیہ کی ذاتی ویڈیو بھیجی گئی ہے۔ تاہم وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اعظم سواتی کی مبینہ ویڈیو کو جعلی قرار دیا ہے۔
اعظم سواتی کا سپریم کورٹ سے رجوع
تاہم سینیٹر اعظم سواتی نے مبینہ ویڈیو کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے معاملے کی تحقیقات کی درخواست کی ہے۔
پیر کو سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ ایف آئی اے کے پاس کون سی ویڈیو ہے جسے وہ جعلی قراردے رہے ہیں البتہ جو ویڈیو انہیں موصول ہوئی ہےوہ اصلی ہے اور ویڈیو کا صرف ایک حصہ جعلی ہے۔
اس بارے ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ اعظم سواتی باضابطہ تحقیقات کے لیے تحریری درخواست جمع کرائیں اور اپنے تمام تحفظات بیان کریں جس کی روشنی میں مزید تفتیش کی جاسکے گی۔
سجاد مصطفی کا کہنا ہے کہ آج کل جعلی ویڈیو بنانا یا ویڈیو میں تبدیلی کرنا کوئی مشکل کام نہیں اور یہ تمام کام سافٹ ویئرز کے زریعے باآسانی کیے جا سکتے ہیں۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے پاس اس قسم کی ہزاروں درخواستیں جمع ہوتی ہیں جس میں جعلی ویڈیو یا تصاویر کی شکایت کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر سینیٹر اعظم سواتی کی مبینہ ویڈِو اصلی ہے تو انہیں معلوم ہو گا کہ یہ کہاں بنائی گئی ہے۔
مبینہ ویڈیو کہاں بنی؟ بیانات میں تضاد
اعظم سواتی نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی ویڈیو سپریم کورٹ جوڈیشل لاجز کوئٹہ میں ان کے قیام کے دوران بنائی گئی تھی جہاں وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ٹھہرے تھے۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ جوڈیشل لاجز میں صرف موجودہ اور ریٹائرڈ ججز قیام کر سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے اعلامیے میں اسپیشل برانچ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اعظم سواتی نے اپنے کوئٹہ کے دورے کے دوران بلوچستان جوڈیشل اکیڈمی (جوڈیشل کمپلیکس کوئٹہ) میں قیام کیا تھا جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے زیر انتطام نہیں ہے۔
لیکن جوڈٰیشل اکیڈمی نے بھی اپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ اسپیشل برانچ کی رپورٹ درست نہیں کیوں کہ جوڈیشل اکیڈمی تعلیمی مقاصد کے لیے ہے اور یہاں رہائش کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔