رسائی کے لنکس

حکومت اور تحریکِ لبیک کے درمیان 'فوج کی کاوشوں سے' معاہدہ طے


تحریکِ لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی نے پیر کو پریس کانفرنس میں دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا
تحریکِ لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی نے پیر کو پریس کانفرنس میں دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا

معاہدے میں طے پایا ہے کہ راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں بننے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ 30 دن میں منظرِ عام پر لائی جائے گی

اسلام آباد میں جاری دھرنے کے خاتمے کے لیے حکومت اور دھرنا دینے والی جماعت 'تحریک لبیک یارسول اللہ' کے درمیان پاکستانی فوج کی مدد سے معاہدہ طے پاگیا ہے جس کے بعد تحریکِ لبیک کے سربراہ نے ملک بھر میں اپنے حامیوں کو دھرنے ختم کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

اتوار کی دوپہر فیض آباد میں جاری دھرنے کے دوران پریس کانفرنس کرتے ہوئے تحریکِ لبیک کے امیر خادم حسین رضوی نے کہا کہ ان کا مطالبہ سیدھا سادا تھا لیکن حکومت نے اسے طوالت دی۔

انہوں نے کہا کہ دھرنا ختم کرانے کے لیے آرمی چیف نے ذاتی دلچسپی لی اور کہا کہ مطالبات پورے کرانے کے لیے ہم ضامن بنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے میجر جنرل فیض حمید ان کے پاس آئے۔

خادم حسین رضوی نے کہا کہ ہمارے اور حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق ہمارے پاس 12 گھنٹوں کا وقت ہے جس میں ہمارے گرفتار کارکن رہا کردیے جائیں گے جس کے بعد ہم روانہ ہوجائیں گے۔

خادم حسین رضوی کی جانب سے حکومت کے ساتھ معاہدہ طے پانے کے اعلان کے بعد دھرنے کے شرکا نے اپنا سامان سمیٹنا شروع کردیا ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران اپنے دیگر مطالبات کے بارے میں خادم حسین رضوی نے بتایا کہ پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثنا اللہ ختمِ نبوت کے مسئلے پر علما بورڈ کے سامنے پیش ہوکر اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گے۔

وزیرِ قانون زاہد حامد کے استعفے کی خبر ملنے پر فیض آباد کے دھرنے میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں
وزیرِ قانون زاہد حامد کے استعفے کی خبر ملنے پر فیض آباد کے دھرنے میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں

خادم حسین رضوی کے مطابق حکومت نے پنجاب میں لاؤڈ اسپیکر پر پابندی ختم کرنے کا ان کا مطالبہ بھی مان لیا ہے جب کہ صوبے کی نصابِ تعلیم کمیٹی میں دو علما شامل کیے جائیں گے۔

خادم حسین رضوی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے امریکہ میں گرفتار عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے وزارتِ خارجہ اور داخلہ کی طرف سے کوششوں کی یقین دہانی کا اپنا مطالبہ بھی حکومت سے منوالیا ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران خادم حسین صحافیوں پر برس پڑے اور بولے کہ اگر لائیو کوریج نہیں کرنی تھی تو پھر یہاں کیوں آئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اب جب تک لائیو کوریج نہیں ہو گی اس وقت تک میڈیا کے نمائندے کہیں نہیں جائیں گے۔

اس پر میڈیا نمائندوں نے انہیں آگاہ کیا کہ پیمرا کی طرف سے براہِ راست کوریج پر پابندی ہے۔ اس دوران رینجرز کی مداخلت پر دھرنے کے شرکا نے صحافیوں جانے کی اجازت دی۔

اتوار اور پیر کی درمیانی شب طے پانے والے معاہدے کے بعد پیر کی صبح سے ہی فیض آباد کے مقام پر رینجرز اور ایف سی کی نفری بھی گزشتہ روز کے مقابلے میں کم ہے جب کہ دھرنا قائدین کی پریس کانفرنس کے بعد اسلام اباد کی انتظامیہ کی جانب سے دھرنے کی جانب جانے والی سڑکوں سے کنٹینرز ہٹائے جارہے ہیں۔

خادم حسین رضوی کی ہدایت کے بعد فیض آباد دھرنے سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں جاری دھرنے بھی ختم ہوگئے ہیں جس کے بعد کراچی، لاہور اور فیصل آباد سمیت مختلف شہروں میں معمولاتِ زندگی اور کاروبار بحال ہورہا ہے۔

معاہدے کی پہلی شرط کے تحت وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے اپنے عہدے سے رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دے دیا ہے جو وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے منظور کرلیا ہے۔

دھرنا مظاہرین کے ساتھ معاہدہ طے پانے کی خبر کے بعد اسلام آباد کی انتظامیہ نے سڑکوں سے رکاوٹیں ہٹانے کا کام شروع کردیا ہے
دھرنا مظاہرین کے ساتھ معاہدہ طے پانے کی خبر کے بعد اسلام آباد کی انتظامیہ نے سڑکوں سے رکاوٹیں ہٹانے کا کام شروع کردیا ہے

معاہدے کے تحریر شدہ متن کے مطابق دھرنا مظاہرین کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ وزارتِ قانون کے ذریعے ختمِ نبوت اور تحفظِ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق قانون میں ترمیم پیش کی گئی تھی لہذا وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کو ان کے عہدے سے برطرف کیا جائے۔

معاہدے میں یہ بھی درج ہے کہ تحریکِ لبیک وزیرِ قانون کے خلاف کسی قسم کا فتویٰ جاری نہیں کرے گی۔

معاہدے کی دیگر شقوں میں دھرنا قائدین کی جانب سے حکومت پاکستان کے الیکشن ایکٹ 2017ء میں 7بی اور 7سی کو مکمل متن کے ساتھ اردو حلف نامے میں شامل کرنے کے عمل کو قابلِ ستائش قرار دیا گیا ہے۔

معاہدے میں طے پایا ہے کہ راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں بننے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ 30 دن میں منظرِ عام پر لائی جائے گی اور اس رپورٹ کے مطابق جو افراد ذمہ دار قرار پائیں گے ان کے خلاف ملکی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

معاہدے کے مطابق 6نومبر 2017ء سے دھرنے کے اختتام پذیر ہونے تک تحریکِ لبیک کے ملک بھر میں گرفتار تمام کارکن ایک سے تین دن تک ضابطے کی کارروائی کے مطابق رہا کردیے جائیں گےاور ان کے خلاف درج مقدمات اور ان کی نظر بندیاں ختم کردی جائیں گی۔

معاہدے میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ 25نومبر 2017ء کو فیض آباد میں دھرنے پر بیٹھے افراد کے خلاف ہونے والے حکومتی ایکشن کے خلاف تحریکِ لبیک کو اعتماد میں لے کر ایک انکوائری بورڈ تشکیل دیا جائے جو تمام معاملات کی چھان بین کرکے حکومت، انتظامیہ اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا تعین کرے اور 30 روز کے اندر انکوائری مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے۔

معاہدے میں مزید کہا گیا ہے کہ 6نومبر 2017ء سے دھرنے کے اختتام تک جو سرکاری اور غیرسرکاری املاک کا نقصان ہوا ہے اس کا تعین کرکے ازالہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کریں گی۔

معاہدے کے مطابق حکومتِ پنجاب سے متعلق معاہدے میں جن نکات پر اتفاق ہو چکا ہے، ان پر من و عن عمل کیا جائے گا۔

معاہدے کی دستاویز میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ معاہدہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی نمائندہ ٹیم کی خصوصی کاوشوں کے ذریعے طے پایا ہے جس کے لیے ان کے مشکور ہیں کہ "انہوں نے قوم کو ایک بہت بڑے سانحے سے بچا لیا۔"

معاہدے کے آخر میں چھ افراد کے دستخط ہیں جن میں سے حکومت کی جانب سے دو افراد وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور وفاقی سیکریٹری داخلہ ارشد مرزا، تحریکِ لبیک کی جانب سے مرکزی امیر علامہ خادم حسین رضوی، سرپرستِ اعلیٰ پیر محمد افضل قادری، مرکزی ناظمِ اعلیٰ محمد وحید نورجبکہ بوساطت کی ذیل میں ایک حاضر سروس فوجی افسر، میجر جنرل فیض حمید کے نام و دستخط شامل ہیں۔

اکیس روز سے جاری اس دھرنے کے خلاف ہفتے کو کیے جانے والے آپریشن کے دوران چار افراد ہلاک جبکہ 200 کے قریب زخمی ہوئے۔ تین ہفتوں سے جاری دھرنے کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

XS
SM
MD
LG