پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے ملی مسلم لیگ کا مبینہ تعلق ملک کے بعض شدت پسند گروپوں سے جوڑتے ہوئے اسے الیکشن کمیشن میں بطور سیاسی جماعت رجسٹر کرنے کے اقدام کی مخالفت کی ہے۔
الیکشن کمیشن نے ملی مسلم لیگ کو سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر کرنے سے انکار کیا تھا جس پر تنظیم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
وزارتِ داخلہ نے عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹ کے تناظر میں وہ ملی مسلم لیگ کے بطور سیاسی جماعت اندراج کے حق میں نہیں ہے۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ رپورٹ میں ان خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ اگر ملی مسلم لیگ کو بطور سیاسی جماعت رجسٹر کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ سے ملکی سیاست میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کے رجحانات کو فروغ ملے گا۔
وزارتِ داخلہ کی طرف سے عدالت میں داخل کیے گئے جواب کے مطابق ملی مسلم لیگ کا تعلق کالعدم شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ سے ہے جن کے بارے میں بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ 2008ء میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں مبینہ طور پر ملوث تھیں۔
ملی مسلم لیگ نے ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف دائر اپنی درخواست میں موقف اخیتار کیا ہے کہ اس جماعت کے کسی عہدیدار کا تعلق کسی کالعدم تنطیم سے نہیں ہے اور آئین کے تحت انہیں ملک کے دیگر شہریوں کی طرح سیاسی جماعت بنا کر انتخاب میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔
رواں سال اگست میں بعض افراد نے ملی مسلم لیگ کے نام سے نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا تھا جن کا تعلق مبینہ طور پر حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ سے بتایا جاتا ہے۔ جس پر ملک کے اندر اور باہر بعض حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
بعض مبصرین نے اسے ان عناصر کو ملک کے قومی دھارے میں شامل کرنے کے کوشش قرار دیا ہے جو ماضی میں مبینہ طور پر شدت پسند سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔
سیاسی امور کے تجزیہ کار وجاہت مسعود کا کہنا ہے کہ کہ اگر کوئی انتہا پسند رجحانات رکھنے والے عناصر کو سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کرے تو اس سے اچھے اثرات مرتب ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔
" میرے خیال میں جب تک یہ پاکستان کے آئین اور پاکستانی شہریوں کی برابری کو تسلیم نہ کریں اور جب تک یہ تسلیم نہ کریں کہ وہ اپنے مذہبی خیالات کو دوسروں پر مسلط کرنے پر یقین نہیں رکھتے اس وقت تک قطعی طور پر سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔"
تاہم سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی کا کہنا ہے کہ اگر کسی شخص کے خلاف قانونی طور پر کوئی رکاوٹ نہیں تو اسے سیاست میں حصہ لینے سے روکنا مناسب نہیں ہوگا۔
"میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں اگر کوئی فرد کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہیں تو انہیں قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے اور انہیں سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن جن پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے اور وہ اگر مذہبی رجحان رکھتے ہیں اور وہ سیاست میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو انہیں اس بات کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنی اضافی توانائی اس میدان میں استعمال کر سکیں۔"
حافظ سعید کو رواں سال کے اوائل میں پنجاب حکومت نے نظر بند کر دیا تھا لیکن گزشتہ ماہ ہی عدالت نے عدم ثبوت کی بنا پر ان کی نظر بندی میں توسیع نہ دیتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا اور رہائی کے بعد انہوں آئندہ سال عام انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان بھی کیا تھا۔
رواں ہفتے امریکہ نے حافظ محمد سعید کی طرف سے آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے ارادے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔